زندگی اب تیری رفتار سے ڈر لگتا ہے

سہم جاتا ہوں

اپنے بالوں کی سفیدی پہ سہم جاتا ہوں زندگی اب تیری رفتار سے ڈر لگتا ہے اب تو ہر ایک اداکار سے ڈر لگتا ہے مجھ کو دشمن سے نہیں یار سے ڈر لگتا ہے کیسے دشمن کے مقابل وہ ٹھہر پائے گا جس کو ٹوٹی ہوئی تلوار سے ڈر لگتا ہے وہ جو پازیب مزید پڑھیں

زندگی بہت مختصر ہے

زندگی بہت مختصر ہے

زندگی بہت مختصر ہے اسے عداوتوں کے پیچھے ضائع نہ کیجے زندگی کا سفر ہے بہت مختصر خواہشوں کی کوئی انتہا ہے مگر؟ حوصلے ہیں زمیں والوں کے اس قدر آسمانوں پہ رکھے ہوئے ہیں نظر مبتلا ہیں ترے عشق میں جو گدا /بے نوا تیرے در پر نہ آئیں تو جائیں کدھر اتنے آنسو مزید پڑھیں

رنجِ فراقِ یار

رنجِ فراقِ یار میں رسوا نہیں ہوا

رنجِ فراقِ یار میں رسوا نہیں ہوا اتنا میں چپ ہوا تماشا نہیں ہوا ایسا سفر ہے جس میں کوئی ہمسفر نہیں رستہ ہے اس طرح کا کے دیکھا نہیں ہوا مشکل ہوا ہے رہنا ہمین اس دیار میں برسوں یہاں ر ہے ہیں یہ اپنا نہیں ہوا وہ کام شاہ شہر سے یا شہر مزید پڑھیں

اقبال تیری قوم کا اقبال کھو گیا

اقبال تیری قوم کا اقبال کھو گیا

اقبال تیری قوم کا اقبال کھو گیا ماضی تو سنہرا تھا ، مگر حال کھو گیا وہ رعب و دبدبہ وہ جلال کھو گیا وہ حسن بے مثال وہ جمال کھو گیا ڈوبے ہیں جوابوں میں ، پر سوال کھو گیا اقبال تیری قوم کا اقبال کھو گیا اڑتے جو فضاؤں میں تھے شاہین نہ مزید پڑھیں

جو اَلَم گزر رہے ہیں

جو اَلَم گزر رہے ہیں

میں یہ کس کے نام لکھوں جو اَلَم گزر رہے ہیں مرے شہر جل رہے ہیں مرے لوگ مر رہے ہیں کوئی غُنچہ ہو کہ گُل ہو، کوئی شاخ ہو شجَر ہو وہ ہَوائے گلستاں ہے کہ سبھی بکھر رہے ہیں کبھی رَحمتیں تھیں نازِل اِسی خِطّہ زمیں پر وہی خِطّہ زمیں ہے کہ عذاب مزید پڑھیں

انتخاب

تھی کسی شخص کی تلاش مجھے

شکوہ اول تو بے حساب کیا اور پھر بند ہی یہ باب کیا جانتے تھے بدی عوام جسے ہم نے اس سے بھی اجتناب کیا تھی کسی شخص کی تلاش مجھے میں نے خود کو ہی انتخاب کیا اک طرف میں ہوں ، اک طرف تم ہو جانے کس نے کسے خراب کیا آخر اب مزید پڑھیں

درخت کٹ گیا لیکن وہ رابطے ناصرؔ

کٹ گیا درخت مگر تعلق کی بات تھی

کٹ گیا درخت مگر تعلق کی بات تھی بیٹھے رہے زمین پر پرندے تمام رات کھلے دلوں سے ملے فاصلہ بھی رکھتے رہے تمام عمر عجب لوگ مجھ سے الجھے رہے حنوط تتلیاں شو کیس میں نظر آئیں شریر بچے گھروں میں بھی سہمے سہمے رہے اب آئینہ بھی مزاجوں کی بات کرتا ہے بکھر مزید پڑھیں

تنگ آ چکا ہوں سانس لگاتار کھینچ کر

ہموار کھینچ کر، کبھی دشوار کھینچ کر

ہموار کھینچ کر، کبھی دشوار کھینچ کر تنگ آ چکا ہوں سانس لگاتار کھینچ کر میدان میں اگر نہ آتا میں تلوار کھینچ کر لے جاتے لوگ مصر کے بازار کھینچ کر خاطر میں کچھ نہ لائے گا یہ سائلِ عشق ہے تم کیوں روکتے ھو ریت کی دیوار کھینچ کر اُکتا چُکا یہ دل مزید پڑھیں