ہموار کھینچ کر، کبھی دشوار کھینچ کر
تنگ آ چکا ہوں سانس لگاتار کھینچ کر
میدان میں اگر نہ آتا میں تلوار کھینچ کر
لے جاتے لوگ مصر کے بازار کھینچ کر
خاطر میں کچھ نہ لائے گا یہ سائلِ عشق ہے
تم کیوں روکتے ھو ریت کی دیوار کھینچ کر
اُکتا چُکا یہ دل بھی، نظر بھی، میں آپ بھی
مُدّت سے تیری حســرتِ دیدار کھینچ کـــــر
ہرگز یہ ایسے ماننے والی نہیں میاںؔ
دُنیا کو دو لگا سرِ بــازار کھینچ کـــر
جــاتا رہا وہ کیف نہـــاں جو چُبھن میں تھا
پچھتا رہا ہوں پاؤں کے اب خار کھینچ کر
علی تاصف کی غزل ہے
میری غزل ہے مقطع ہٹا کر لگا دی گئی ہے
علی تاصف