صلہ رحمی


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ بدلے کی صلہ رحمی کرنے والا صلہ رحمی نہیں کرتا۔

اس صلہ رحمی پہ تو آپ کو اجر ہی نہیں ملے گا۔ اجر تو تب ملے گا جب آپ بُرے کے جواب میں اچھا کریں، انہیں معاف کریں اور اپنا حق اللہ سے مانگیں۔

لوگوں کے غلط فیصلے کو بنیاد بنا کر ان پہ ظلم کرو گے تو یہ مت بھولو کہ پل صراط پہ رحم اور امانت کے کانٹے ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔ ہر خائن اور قطع رحمی کرنے والے کو پل سے نیچے جہنم میں گرائیں گے، اور ہر امانت دار اور صلہ رحمی کرنے والا پل پار کر جائے گا-

سورة الشمس

Sila Rehmi


صلہ رحمی” ایک تبصرہ

  1. ہم جنس پرستی کا سیلاب اور ہماری ذمہ داریاں
    نہ جانے ہم جنس پرستی کی اس لعنت نے کتنے لوگوں کی زندگی اجیرن بنادی ہے۔ ان تکلیف دہ حالات میں ہر مسلمان کی خصوصی اور درد دل رکھنے والے اور انسانیت کی فلاح وبہبود کے متمنی افراد کی یہ عمومی ذمہ داری ہے کہ اپنے اپنے دائرہ کار میں انفرادی واجتماعی سطح پر ہم جنس پرستی کے نقصانات کو اجاگر کرکے اس کے خلاف بھر پور کردار ادا کریں۔اس سلسلے میں درج ذیل اقدامات کیے جا سکتے ہیں :

    ۱۔ قومی اخبارات، رسائل وجرائد،خصوصاً مذہبی رسائل ہم جنس پرستی کے متعلق آسمانی تعلیمات سے لوگوں کو آگاہ کریں۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے قلم کی قوت عطافرمائی ہے، وہ اس نعمت کا شکریہ اداکرتے ہوئے اس کے ذریعے سے ہم جنس پرستی کے خلاف بھر پورآواز بلند کریں۔

    ۲۔ وارثان منبر ومحراب اپنے دروس، جمعۃالمبار ک کے خطبات اور نجی محافل میں عامۃالناس کو ہم جنس پرستی کے تصور،اس کے آغاز ،اس کے نقصانات اور اس کے نتیجے میں قوم لوط کی تباہی وبربادی کے متعلق آگاہ کریں اور انہیں اخلاقی طور پر آمادہ کریں کہ وہ اپنے نونہالوں کو جو کہ ان کا بھی اور پاکستان کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کا بھی مستقبل ہیں، بلیرڈگیمز کی دوکانوں ، ویڈیو گیمز کے مراکز، سنوکر کلبوں ، تھیٹرز ، منی سینماز اور دیگر ایسے مقامات میں جانے سے روکیں جہاں ہر طبقے ،ہر عمر اور ہر مزاج و فطرت کے لوگ جمع ہوکر مختلف قسم کی گیمز کھیلتے ہیں۔

    ۳۔ تعلیمی درس گاہیں، خواہ وہ دینی ہوں یا عصری ، اس ضمن میں طلبہ کی فکری تربیت کرتے ہوئے انھیں ہم جنس پرستی کی حقیقت اور اس کے دینی و دنیاوی نقصانات سے روشناس کرائیں ۔ یہ بات یقینی ہے کہ مختلف NGOs کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کے مقابلے میں تعلیمی اداروں کی تھوڑی سی کاوش بھی بہترین نتائج کا باعث بنے گی۔

    ۴۔ جدوجہد کا ایک دائرہ کار یہ بھی ہے کہ حضرت لوط کی قوم کی تباہی کا مکمل قرآنی واقعہ،اس برائی کی مذمت میں مذکور احادیث نبویہ،اس برائی کے روحانی اور طبی نقصانات کو کتابچے کی صورت میں شائع کرواکر عامۃالناس میں تقسیم کرنے کا اہتمام کیا جائے ۔

    امت مسلمہ ہی نہیں، بلکہ ہر وہ شخص جو آسمانی تعلیمات کی حقانیت و صداقت پر یقین رکھتا ہے اور ہر وہ شخص جو انسانیت کی فلاح و بہبود کا حامی ہے، اسے اس برائی کے خلاف اپنا پورا کردار ادا کرنا چاہیے۔

    قارئین !آخر میں ہمیں کچھ وقت کے لیے پوری قوت فکر کو مجتمع کرتے ہوئے سوچنا چاہیے کہ کہیں بحرلوط کی کوئی طوفانی لہرپھر انسانیت کا پیچھا تو نہیں کر رہی؟یہ سوچتے ہوئے یہ فرمان الہٰی بھی پیش نظر رہے: وما ھی من الظالمین ببعید (سورہ ہود) ’’اور قوم لوط کی یہ (تباہ وبرباد ہونے والی )بستی ان ظالموں سے دور تو نہیں ۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں