رنجِ فراقِ یار


رنجِ فراقِ یار میں رسوا نہیں ہوا
اتنا میں چپ ہوا تماشا نہیں ہوا

ایسا سفر ہے جس میں کوئی ہمسفر نہیں
رستہ ہے اس طرح کا کے دیکھا نہیں ہوا
مشکل ہوا ہے رہنا ہمین اس دیار میں
برسوں یہاں ر ہے ہیں یہ اپنا نہیں ہوا
وہ کام شاہ شہر سے یا شہر سے ہوا
جو کام بھی ہوا ہے وہ اچھا نہیں ہوا
ملنا تھا اس سے ایک بار پھر کہیں مجھے
ایسا میں چاہتا تھا پر ایسا نہیں ہوا
منیر نیازی


اپنا تبصرہ بھیجیں