بچپن کی امیری ، بچپن کی یادیں


بچپن کی وہ امیری نہ جانے کہاں کھو گئی
جب پانی میں ہمارے جہاز چلا کرتے تھے

یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹادو بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی

محلے کی سب سے پرانی نشانی
وہ بڑھیا جسے بچے کہتے تھے نانی
وہ نانی کی باتوں میں پریوں کا ڈھیرا
وہ چہرے کی جہریوں میں میں صدیوں کا پھیرا
بھلائے نہیں بھول سکتا ہے کوئی
وہ چھوٹی سی راتیں وہ لمبی کہانی



کھڑی دھوپ میں اپنے گھر سے نکلنا
وہ چڑیاں وہ بلبل وہ تتلی پکڑنا
وہ گھڑیا کی شادی میں لڑنا جھگڑنا
وہ جھولوں سے گرنا وہ گر کہ سنبھلنا
وہ پیتل کے چھلوں کے پیارے سے تحفے
وہ ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کی نشانی

کبھی ریت کے اونچے ٹیلوں پہ جانا
گھروندے بنانا بنا کہ مٹانا
وہ معصوم چاہت کی تصویر اپنی
وہ خوابوں خیالوں کی جاگیر اپنی
نہ دنیا کا غم تھا نہ رشتوں کا بندھن
بڑی خوبصورت تھی وہ زندگانی

Bachpan Ki Wo Ameeri Na Janay Kahan Khoo Gayi
Jab Pani Mein Hamary Jahaz Chala Karty Thay


8 تبصرے “بچپن کی امیری ، بچپن کی یادیں

    1. بے شک بچپن ایک انمول زمانہ ہوتا ہے جو ہم کسی بھی قیمت پر نا واپس لا سکتے ہیں اور نا خرید سکتے ہیں وہ صرف اور صرف ایک حسین یاد بن کر رہ جاتا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں