جو اَلَم گزر رہے ہیں


میں یہ کس کے نام لکھوں جو اَلَم گزر رہے ہیں
مرے شہر جل رہے ہیں مرے لوگ مر رہے ہیں

جو اَلَم گزر رہے ہیں

کوئی غُنچہ ہو کہ گُل ہو، کوئی شاخ ہو شجَر ہو
وہ ہَوائے گلستاں ہے کہ سبھی بکھر رہے ہیں

کبھی رَحمتیں تھیں نازِل اِسی خِطّہ زمیں پر
وہی خِطّہ زمیں ہے کہ عذاب اُتر رہے ہیں

وہی طائروں کے جھُرمَٹ جو ہَوا میں جھُولتے تھے
وہ فَضا کو دیکھتے ہیں تو اب آہ بھر رہے ہیں

بڑی آرزو تھی ہم کو نئے خواب دیکھنے کی
سو اب اپنی زندگی میں نئے خواب بھر رہے ہیں

کوئی اور تو نہیں ہے پسِ خنجر آزمائی
ہم ہی قتل ہو رہے ہیں، ہم ہی قتل کر رہے ہیں

(عبیداللہ علیم)

Ji Alam Guzer Rahay Hen
Meray Shehar Jal Rahay Hen
Meray Loag Marr Rahay Hen
Koi Or To Nahi Hay? Pass e Khanjr Azmai
Hum Hi Qatal Ho Rahy Hen
Hum Hi Qatal Ho Rahy Hen


جو اَلَم گزر رہے ہیں” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں