زندگی بہت مختصر ہے
اسے عداوتوں کے پیچھے ضائع نہ کیجے
زندگی کا سفر ہے بہت مختصر
خواہشوں کی کوئی انتہا ہے مگر؟
حوصلے ہیں زمیں والوں کے اس قدر
آسمانوں پہ رکھے ہوئے ہیں نظر
مبتلا ہیں ترے عشق میں جو گدا /بے نوا
تیرے در پر نہ آئیں تو جائیں کدھر
اتنے آنسو بہے ہیں تری یاد میں
ڈر ہے بہنے نہ لگ جائے خونِ جگر
لا مکاں سے مکاں کا سفر طے ہوا
ہجر کے دشت سے وصل کے مستقر
گر جنوں منزلوں تک نہ لاتا ہمیں
تو بھٹکتے ہی رہتے ادھر سے ادھر
جن کو رستہ بتایا تھا ہم نے کبھی
چل دیے وہ اکیلے، ہمیں چھوڑ کر
رونقِ بزم وہ ،ہم ہیں خلوت پسند
وہ چلے اُس ڈگر ہم چلے اِس ڈگر
محمد عظیم الدین