پیاسی مرے خیال کی رعنائی رہ گئی کیا جانئیے گھٹا وہ کہاں چھائی رہ گئی ایک ایک کر کے اُڑ گئیں پرچھائیاں تمام اب صرف آہٹوں کی مسیحائی رہ گئی ایسا نہیں کوئی کہ ہم اپنا کہیں جسے اب چند پتھروں سے شناسائی رہ گئی جاتے ہیں سب کوئی نہ کوئی یاد چھوڑ کر رخصت مزید پڑھیں
زمرہ: قتیل شفائی
برسوں چلے قتیل زمانے کے ساتھ ہم
برسوں چلے قتیل زمانے کے ساتھ ہم واقف ہوئے نہ پھر بھی زمانے کی چال سے روکا ہے تو نے جس کو سدا عرضِ حال سے ہجرت وہ کر گیا ترے شہرِ وصال سے وہ مر گیا جب اس کی سکونت بدل گئی جیون سے بڑھ کے پیار تھا پنچھی کو ڈال سے بندھوا رہا مزید پڑھیں