پیاسی مرے خیال کی رعنائی رہ گئی
کیا جانئیے گھٹا وہ کہاں چھائی رہ گئی
ایک ایک کر کے اُڑ گئیں پرچھائیاں تمام
اب صرف آہٹوں کی مسیحائی رہ گئی
ایسا نہیں کوئی کہ ہم اپنا کہیں جسے
اب چند پتھروں سے شناسائی رہ گئی
جاتے ہیں سب کوئی نہ کوئی یاد چھوڑ کر
رخصت ہوا جو عشق تو رُسوائی رہ گئی
دیکھا کسی کی یاد کو جب مجھ سے ہمکلام
حیراں مری طرح مری تنہائی رہ گئی
لایا قتیلؔ وقت ہمیں کس مقام پر
سب ولولے چلے گئے دانائی رہ گئی
قتیل شفائی