برسوں چلے قتیل زمانے کے ساتھ ہم
واقف ہوئے نہ پھر بھی زمانے کی چال سے
روکا ہے تو نے جس کو سدا عرضِ حال سے
ہجرت وہ کر گیا ترے شہرِ وصال سے
وہ مر گیا جب اس کی سکونت بدل گئی
جیون سے بڑھ کے پیار تھا پنچھی کو ڈال سے
بندھوا رہا تھا جو مرے پاؤں میں بجلیاں
آگے بڑھا نہ خود وہ حدِ اعتدال سے
تھی ایسی بے خودی کہ جب آیا وہ سامنے
مفہوم گِر گیا مرے دستِ سوال سے
تھا میں بھی حکمراں کبھی اقلیمِ حُسن پر
کچھ لے سبق رقیب مرے ہی زوال سے
برسوں چلے قتیل زمانے کے ساتھ ہم
واقف ہوئے نہ پھر بھی زمانے کی چال سے
قتیل شفائی