فِراق یار کی بارش، ملال کا موسم ہمارے شہر میں اُترا کمال کا موسم وہ اِک دُعا! جو مِری نامُراد لوٹ آئی زباں سے رُوٹھ گیا پھر سوال کا موسم بہت دِنوں سے مِرے ذہن کے دریچوں میں ! ٹھہر گیا ہے تمھارے خیال کا موسم جو بے یقیں ہوں بہاریں، اُجڑ بھی سکتی ہیں مزید پڑھیں