فِراق یار کی بارش، ملال کا موسم
ہمارے شہر میں اُترا کمال کا موسم
وہ اِک دُعا! جو مِری نامُراد لوٹ آئی
زباں سے رُوٹھ گیا پھر سوال کا موسم
بہت دِنوں سے مِرے ذہن کے دریچوں میں !
ٹھہر گیا ہے تمھارے خیال کا موسم
جو بے یقیں ہوں بہاریں، اُجڑ بھی سکتی ہیں
تو آ کے دیکھ لے میرے زوال کا موسم
محبتیں بھی تِری دُھوپ چھاؤں جیسی ہیں
کبھی یہ ہجر، کبھی یہ وصال کا موسم
کوئی مِلا ہی نہیں جس کو سونپتے، مُحسن
ہم اپنے خواب کی خوشبو، خیال کا موسم
محسن نقوی