کیا پوچھتے ہو تیرے ہجر میں کیا سوچتے ہیں سجا کے تم کو نگاہوں میں صدا سوچتے ہیں تیرے وجود کو چھو کر جو گزری ہے کبھی ہم اس ہوا کو بھی جنت کی ہوا سوچتے ہیں یہ اپنے ظرف کی حد ہے کے فقط تیرا لحاظ تیرے ستم کو مقدر کا لکھا سوچتے ہیں مزید پڑھیں
زمرہ: احمد فرازؔ
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیںبہتر تھا اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں پھر بھی اک عمر لگی جان سے جاتے جاتے جشنِ مقتل ہی نہ برپا ہوا ورنہ ہم بھی مزید پڑھیں