سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے


سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے

شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں‌بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں
پھر بھی اک عمر لگی جان سے جاتے جاتے

جشنِ مقتل ہی نہ برپا ہوا ورنہ ہم بھی
پابجولاں ہی سہی ناچتے گاتے جاتے

اس کی وہ جانے اسے پاسِ وفا تھا کہ نہ تھا
تم فرازؔ اپنی طرف سے تو نبھاتے جاتے

احمد فرازؔ

سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے

Shikwa Zulmat-e-Shab Say To Kahin Behtar Tha
Apnay Hisay Ki Koyi Shama Jalaty Jatay


سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں