کیا پوچھتے ہو تیرے ہجر میں کیا سوچتے ہیں
سجا کے تم کو نگاہوں میں صدا سوچتے ہیں
تیرے وجود کو چھو کر جو گزری ہے کبھی
ہم اس ہوا کو بھی جنت کی ہوا سوچتے ہیں
یہ اپنے ظرف کی حد ہے کے فقط تیرا لحاظ
تیرے ستم کو مقدر کا لکھا سوچتے ہیں
میرا اس شہر عداوت میں بسیرا ہے جہاں
لوگ سجدوں میں بھی لوگوں کا برا سوچتے ہیں
کس قدر ہم بھی ہیں نادان محبت میں
تیرے اخلاص کو ہم تیری وفا سوچتے ہیں
احمد فراز