ہوئی مدّت کے غالب مر گیا پر یاد آتا ہے
وہ ہر بات پہ کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈُبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
ہُوا جب غم سے یوں بے حِس تو غم کیا سر کے کٹنے کا
نہ ہوتا گر جدا تن سے تو زانو پر دھرا ہوتا
ہوئی مدت کہ غالبؔ مر گیا، پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
مرزا اسد اللہ خان غالب
اقبال گر بگڑی تو بگڑ جائے گی
زندگی کوئی زلف نہیں جو سنور جائے گی