ایسے لوگوں کی مدد کرو
جن کا چہرہ سوال ہوتا ہے
اور زبان بے سوال ہوتی ہے….
(واصف علی واصف)
قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ –
” نیکی صرف یہی نہیں کہ آپ لوگ اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیر لیں بلکہ اصل نیکی تو اس شخص کی ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور (آسمانی) کتابوں پر اور پیغمبروں پر ایمان لائے،اور مال سے محبت کے باوجود اسے قرابت داروں ،یتیموں،محتاجوں، مسافروں، سوال کرنے والوں، اور غلاموں کی آزادی پر خرچ کرے۔یہ وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰة دیتے ہیں اور جب کوئی وعدہ کریں تو اسے پورا کرتے ہیں۔ سختی، مصیبت اور جہاد کے وقت صبر کرتے ہیں۔ یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔(سورة البقرةآیت،١٧٧)
مختلف انسانی معاشروں اور غالب تہذیبوں نے غریب، محتاج، مسکین، مفلس اور مجبور کو ہمیشہ سے حقیر، کم تر اور قابلِ نفرت جانا۔ زمانۂ جاہلیت سے پہلے خود عرب میں بھی ان لوگوں پر عرصۂ حیات تنگ تھا۔ غریب ہونا ایک گالی اور ایک ایسا جرم تھا کہ جس کی سزا ساری زندگی ملتی رہتی، مگر یہ ظلم و ستم اور قہر و جبر کے غیر انسانی رویّےدرحقیقت، تاریخِ انسانی کے چہرے پر بدنما داغ ہیں۔ دنیا میں جب اسلام کا سورج طلوع ہوا اور نبی آخرالزماں، محسنِ انسانیت، رحمت العالمین، حضرت محمد مصطفیٰﷺ مسند ِرسالت پر جلوہ افروز ہوئے، تو آپؐ نے اللہ کے احکامات کی روشنی میں غریب کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کے بارے میں لوگوں کو سخت ترین عذاب کی وعید سنائی اور انہیں پابند کیا کہ وہ اپنے مال کا ایک حصّہ ان بے کس لوگوں پر خرچ کریں-
محتاجوں،غریبوں ، یتیموں اور ضرورت مندوں کی مدد، معاونت ، حاجت روائی اور دلجوئی کرنا دین اسلام کا بنیادی درس ہے ۔ دوسروں کی مدد کرنے،ان کے ساتھ تعاون کرنے، ان کے لیے روزمرہ کی ضرورت کی اشیاءفراہم کرنے کو دین اسلام نے کار ثواب اور اپنے ربّ کو راضی کرنے کانسخہ بتایاہے ۔ خالق کائنات اللہ ربّ العزت نے امیروں کو اپنے مال میں سے غریبوں کو دینے کا حکم دیا ہے ، صاحب استطاعت پر واجب ہے کہ وہ مستحقین کی مقدور بھر مدد کرے- آج ہمیں اپنے اندر اعلیٰ اوصاف پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے ۔
دوسروں کی مشکلات ومسائل کو محسوس کرتے ہوئے ان کا ہاتھ بٹایا جائے ۔ ہماری مدد و معاونت سے اگر کسی کی جان بچ سکتی ہے، کسی کی مشکل آسان ہوسکتی ہے ، کسی مجبور کا علاج ہوسکتا ہے ، کسی کے حصول رزق میں معاونت ہوسکتی ہے ، کسی کو حصول علم میں مدد دی جاسکتی ہے تو یہ ہمارے لئے باعث اعزاز اور باعث راحت ہے ۔لہٰذا ہمیں اپنی زندگی کو اس انداز سے گزارنے کی کوشش کی جائے کہ دین و دنیاکی خوشنودی کے ساتھ ساتھ دلی اطمینان بھی حاصل ہو ، یہی حقیقی زندگی ہے ۔