عمر کی ساری تھکن لاد کے گھر جاتا ہوں


عمر کی ساری تھکن لاد کے گھر جاتا ہوں
رات بستر پہ میں سوتا نہیں مر جاتا ہوں

غربت میں گِھرا ہوا شخص

میں نے جو اپنے خلاف آج گواہی دی ہے​
وہ ترے حق میں نہیں ہے تو مکر جاتا ہوں​

اکثر اوقات۔۔۔۔ بھرے شہر کے سناٹے میں
اس قدر زور سے ہنستا ہوں کہ ڈر جاتا ہوں

میرے آنے کی خبر صرف دیا رکھتا ہے
میں ہواؤں کی طرح آ کے گزر جاتا ہوں

دل ٹھہر جاتا ہے بھولی ہوئی منزل میں کہیں
میں کسی دوسرے رستے سے گذر جاتا ہوں

سمٹا رہتا ہوں بہت حلقہء احباب میں،مَیں
چار دیواری میں آتے ہی بکھر جاتا ہوں

انجم سلیمی

Umer Ki Sari Thakn Laad Kay Ghr Jata Hoon
Raat Bister Pe Mein Sota Nahi Mrr Jata Hoon


اپنا تبصرہ بھیجیں