آہ کو چاہیئے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
دام ہر موج میں ہے حلقہ مہد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب
دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم، تم کو خبر ہونے تک
پر تو حور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک
یک نظر بش نہیں فرصت ہستی، غافل
گرمی بزم ہے اک رقص شرر ہونے تک
غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
مرزا غالب