عالی ظرف

ظرف پیدا کر سمندر کی طرح

ظرف پیدا کر سمندر کی طرح وسعتیں، خاموشیاں، تنہائیاں ہائے لوگوں کی کرم فرمائیاں تہمتیں بدنامیاں رسوائیاں زندگی شاید اسی کا نام ہے دوریاں مجبوریاں تنہائیاں کیا زمانے میں یوں ہی کٹتی ہے رات کروٹیں بیتابیاں انگڑائیاں کیا یہی ہوتی ہے شام انتظار آہٹیں گھبراہٹیں پرچھائیاں ایک رند مست کی ٹھوکر میں ہیں شاہیاں سلطانیاں مزید پڑھیں