پیاسی مرے خیال کی رعنائی رہ گئی کیا جانئیے گھٹا وہ کہاں چھائی رہ گئی ایک ایک کر کے اُڑ گئیں پرچھائیاں تمام اب صرف آہٹوں کی مسیحائی رہ گئی ایسا نہیں کوئی کہ ہم اپنا کہیں جسے اب چند پتھروں سے شناسائی رہ گئی جاتے ہیں سب کوئی نہ کوئی یاد چھوڑ کر رخصت مزید پڑھیں