غصہ بہت برا ساتھی ہے


غصہ بہت برا ساتھی ہے
عیبوں کو ظاہر کر دیتا ہے
برائی کو نزدیک اور
اچھائی کو دور کر دیتا ہے

اللہ کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک صحابی نے عرض کیا اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی نصیحت کیجئے، تو حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غصہ مت کیا کرو، انہوں نے تین مرتبہ یہی سوال کیا اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر بار یہی فرمایا کہ غصہ مت کیا کر۔ (بخاری، ترمذی، موطا امام مالک)

غصہ دشمنی کا پہلا ساتھی ہے اور بہت برا ساتھی ہے۔ جیسے کوئی چیز اندرونی دبائو کی وجہ سے پھٹ جائے۔ اور یہ چیز انسانی جسم کو نقصان پہنچائے۔ غصے کی ابتدا ہمیشہ حماقت سے اور انتہا ندامت پر ہوتی ہے۔ غصہ سے بہت سارے عیب ظاہر ہوجاتے ہیں اور اچھائیوں کو دور کردیتا ہے- کیونکہ جہاں عقل کی حد ختم ہوتی ہے وہاں غصے کی حد شروع ہوتی ہے‘ ہم غصہ میں آتے ہیں تو ہماری عقلوں پر پردہ پڑجاتا ہے۔ ایسے ایسے بول منہ سے نکالتے ہیں کہ برسوں کے تعلقات منقطع ہوجاتے ہیں۔بسا اوقات نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ آدمی دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔

اسلام ہی ایک ایسا دین ہے جو فطرت کے عین مطابق ہے۔اسلام نے غصہ کی خرابیوں اور تباہیوں سے انسانوں کو واضح طور پر خبردار کیا ہے۔غصہ پر قابو رکھنے اور عفو درگزر سے کام لینے والوں کو اسلام پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے۔’’جب ان کو غصہ آتا ہے تو اس کو پی جاتے ہیں یعنی اس کو چھپا لیتے ہیں اس پر عمل نہیں کرتے اور جنہوں نے بر اکیا ہے ان کے ساتھ معافی اوردرگزر کرتے ہیں۔‘‘(سورہ آل عمران 134)

جو انسان اپنے اوپر ہر وقت غصے کا لبادہ اوڑھے رکھتا ہے وہ بلڈپریشر،السر، سر درد،اور دل کےامراض جیسی مہلک بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ خود پسندی ، خود غرضی ، لالچ،جیسی بری صفات حسد بغض اور نفرت کو جنم دیتی ہیں۔ جب ایک انسان صرف اپنی ذات کوہی اہمیت دیتا ہے اور دوسروں کے حق اور حقوق کو خوش دلی سے تسلیم نہیں کرتا تو ایسی صورت میں اس میں حسد اور نفرت کے پراگندہ جذبات جنم لیتے ہیں جو اس کی صحت کو بھی برباد کرتے ہیں۔ اسکی شخصیت کو بھی ناپسندیدہ بناتے ہیں اور اس کی کارکردگی کو بھی بری طرح متاثر کرتے ہیں۔

اگر غصے کو مناسب موقعوں اور صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے تو یہ ہماری زندگی کے لئے بہت سود مند ثابت ہوتا ہے۔غصہ کو بالکل ختم کردینے کے بجائے اس طاقت و توانائی پر قابو پانے کی بچوں کو تربیت فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن ہر حال میں خیال رکھیں کہ غصہ عقل پر کبھی بھی بالا دستی نہ حاصل کر پائے۔

اس کی مثال یہ ہے کہ پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم صحابہ کرامؓ کے ساتھ حج کی نیت سے مکہ مکرمہ کا رخ کرتے ہیں لیکن انہیں حج کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔یہاں پر ایک صلح حدیبیہ طے پاتا ہے جو کفار کی شرائط کے مطابق تھا۔ صحابہ کرامؓ کو اس بات پر بے انتہا غصہ آتا ہے کہ ہم کفار سے دب کر کیوں معاہدہ کریں۔ لیکن چونکہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا حکم تھا اس لیے خاموش رہے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اس غصہ کو قابو پا کر واپسی کا حکم دیتے ہیں۔ لیکن واپس جا کر جب دوبارہ لوٹتے ہیں تو فتح مکہ حاصل کرتے ہیں۔

Gussa Bohat Bura Saathi Hai
Aaiboon Ko Zahir Kar Daita Hai
Burai Ko Nazdeek
Aur
Achai Ko Dour Karta Hai


اپنا تبصرہ بھیجیں