تقدیر پہ شکوہ نہ کریں، انسان اتنا عقلمند نہیں
کہ اللہ کے ارادے کو سمجھ سکے
مَنْ يُرِدِ اﷲُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّيْنِ
اللہ تعاليٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی گہری سمجھ عطا کر دیتا ہے-
وَمَا تَشَاؤُونَ إِلَّا أَن یَشَاءَ اللَّہُ
اور تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے مگر جو اللہ کو منظورہو- الانسان: ۳۰
انسان کو اپنی تقدیر پہ شکوہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اسکے کام اور حکمتیں ہماری سوچ سے باہر ہیں- انسان اتنی عقل نہیں رکھتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ارادے سمجھ سکے- اگر قسمت ہی سب کچھ ہے تو کیا ہنر مندی، محنت یا ذہانت کیا ہیں اور اگر ہے، اور تینوں چیزوں کا انسان کی کامیابی یا ناکامی میں کتنا عمل دخل ہو سکتا ہے- ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی محنت اور مخلصی سے سب کام کریں اور نتیجہ اللہ تعالیٰ کی ذات پہ چھوڑ دینا چاہیے- اﷲ تعاليٰ نے انسان کو جس قدر ظاہری اور باطنی صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں، ان سب کا ایک واضح مقصد یہ ہے کہ اگر وہ چاہے تو اپنی صلاحیتوں کو راہ خیر میں صرف کر کے مراتب کمال سے ہمکنار ہو جائے اور چاہے تو اپنی ان قوتوں کو بدی کے بیج بونے اور کاٹنے کے لئے وقف کردے۔
چنانچہ سورۃ البلد میں ارشاد فرمایا :
اَلَمْ نَجْعَلْ لَّه عَيْنَيْنِo وَلِسَانًا وَّ شَفَتَيْنِo وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِo البلد، 90 : 8-10
’’کیا ہم نے اس کے لیے دو آنکھیں نہیں بنائیں۔ اور (اسے) ایک زبان اور دو ہونٹ (نہیں دیے)۔ اور ہم نے اسے (خیر و شر کے) دو نمایاں راستے (بھی) دکھا دیے۔‘‘
لَآ اِکْرَاهَ فِی الدِّيْنِقف قَدْ تَّبَيَنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ، البقرة،2 : 256
’’دین میں کوئی زبردستی نہیں، بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہوچکی ہے۔‘‘
مَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلَاغُ، المائدة، 5 : 99
’’رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر (احکام کاملاً) پہنچا دینے کے سوا (کوئی اور ذمہ داری) نہیں۔‘‘
وَعِنْدَه مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَايَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ، الأنعام، 6 : 59
’’اور غیب کی کُنجیاں (یعنی وہ راستے جن سے غیب کسی پر آشکار کیا جاتا ہے) اسی کے پاس (اس کی قدرت و ملکیت میں) ہیں، انہیں اس کے سوا (اَز خود) کوئی نہیں جانتا۔‘‘