جو مزاج غم کو سمجھ سکے


جو مزاج غم کو سمجھ سکے
اسی چارہ گر کی تلاش ہے

جو مزاج غم کو سمجھ سکے

مرے فکر و فن کو نئی فضا نئے بال و پر کی تلاش ہے
جو قفس کو یاس کے پھونک دے مجھے اس شرر کی تلاش ہے

ہے عجیب عالم سرخوشی نہ شکیب ہے نہ شکستگی
کبھی منزلوں سے گزر گئے کبھی رہ گزر کی تلاش ہے

مجھے اس جنوں کی ہے جستجو جو چمن کو بخش دے رنگ و بو
جو نوید فصل بہار ہو مجھے اس نظر کی تلاش ہے

مجھے اس سحر کی ہو کیا خوشی جو ہو ظلمتوں میں گھری ہوئی
مری شام غم کو جو لوٹ لے مجھے اس سحر کی تلاش ہے

یوں تو کہنے کے لیے چارہ گر مجھے بے شمار ملے مگر
جو مزاج غم کو سمجھ سکے اسی چارہ گر کی تلاش ہے

مرے ناصحا مرے نکتہ چیں تجھے میرے دل کی خبر نہیں
میں حریف مسلک بندگی تجھے سنگ در کی تلاش ہے

مجھے عشق حسن و حیات سے مجھے ربط فکر و نشاط سے
مرا شعر نغمۂ زندگی تجھے نوحہ گر کی تلاش ہے

اسے ضد کہ وامقؔ شکوہ گر کسی راز سے نہ ہو با خبر
مجھے ناز ہے کہ یہ دیدہ ور مری عمر بھر کی تلاش ہے

وامق جونپوری

Jo Mizaj e Ghum Ko Samjh Sakay Usi Chara Gar Ki Talaash Hai


جو مزاج غم کو سمجھ سکے” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں