میں کرتا گیا خطا


میں کرتا گیا خطا وہ کرتا گیا عطا

میں کرتا گیا خطا

میری آنکھوں سے وہ آنسو جدا ہونے نہیں دیتا
مجھے نا معتبر ، میرا خدا ہونے نہیں دیتا

مری فردِ عمل دھو کر مِری اشکِ ندامت سے
میری لغزش کو وہ میری خطا ہونے نہیں دیتا

عتاب اس کا میرے کردار پر نازل نہیں ہوتا
کہ وہ توّرب ہے محشر بپا ہونے نہیں دیتا

عطا کچھ اس طرح کرتا ہے وہ افکار کی دولت
میرے ذوقِ ہنر کو نارسا ہونے نہیں دیتا

عطا کرتا ہے نعتیں‌ مجھ کو لمحاتِ تہجد میں
کرم کرتا ہے مجھ کو بے نوا ہونے نہیں دیتا

میری ہر احتیاج اسکے کرم کے دائرے میں ہے
مجھے محتاجِ دستِ ماسوا ہونے نہیں دیتا

میں سر سے پاؤں تک اس کی عطا کے سائباں میں ہوں
وہ غافر مجھ پر فتنوں کو بپا ہونے نہیں‌ دیتا

Main Kerta Gaya Khata
Wo Kerta Gaya Ata


اپنا تبصرہ بھیجیں