کل رات اُڑ رہے تھے ستارے ہوا کے ساتھ
اور میں اداس بیٹھا تھا اپنے خدا کےساتھ
دُکھ مت اُٹھا مِرے لیے اے میرے چارہ گر
رِشتہ مِرے مَرض کا نہیں ہے دوا کے ساتھ
کردار ہی کہانی میں کچھ ایسا تھا،مجھے
بے گانہ بن کے رہنا پڑا آشنا کے ساتھ
میں نے تو اپنی عُمر کسی طرح کاٹ لی
تُو چار دن ہی جی کے دِکھا دے اَنا کے ساتھ
یا تو قبولیت کا طریقہ بتا مجھے
یا کہہ تو ہاتھ کاٹ کے رکھ دوں دُعا کے ساتھ
خوشبو کے ساتھ گہرے مراسم تھے میرے دوست
یونہی یہ زندگی نہیں موجِ صبا کے ساتھ
یہ سچ ہے چاہتا تھا میں اُس کے لیے روش
وہ آئینہ بھی دیکھے تو شرم و حیا کے ساتھ
شمیم روش