پڑھنے والوں کا قحط ہے


پڑھنے والوں کا قحط ہے ورنہ
گرتے آنسو کتاب ہوتے ہیں

بھلے وقتوں کی بات ہے کہ چھوٹے چھوٹے کچے گھروں میں اکثریت قیام پزیر تھی کچے صحن پر ڈالے گئی شام ڈھلے پانی کو سوندھی خوشبو پاکستان کے علاوہ شائد ہی کسی اور پاک مٹی کے نصیب میں ہو شام سے پہلے لوگوں کی بڑھتی ہوئی چہل پہل اورکچھ دور برگد کے کسی گھنے بوڑھے پیڑ کے نیچے بٰیٹھ کر عزتوں کے معاملات کو رشتوں میں پرونے والے پنچائیتی اراکین دولت کی نمائش سے کوسوں دور تھے ‘ بان کی بُنی ہوئی کھردری چارپائی پر سفید براق چادر ڈالے اور لشکتے چمکتے گاؤ تکئے سے ٹیک لگائے گاؤں کا بڑا جس کا ہر فیصلہ قبولَ عام تھا کہ بڑے بریف کیس نہیں چلتے تھے۔

اگر ایک گھر میں ماتم ہوتا تو پورا گاؤں سوگوار ہوتا فضا میں رقت پائی جاتی تھی اور لوگوں کے چہرے غم وحزن کا شکار دکھائی دیتے تھے ‘سانجھ کا زمانہ تھا رکھ رکھاؤ سادہ مگرصفائی کا اعلیٍ معیار رکھتا تھا ‘ فکر اورپریشانی نہیں تھی غذا سادی تھی مگر چہرے چمکتے تھے۔ صبح تڑکے منہ اندھیرے مرغ کی بانگ اذان کے ساتھ ہی فضاکو جگا دیتی اور سارے گاؤں میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ‘ دھواں اٹھتے کچے گھر اور بچوں کے رونے کی آوازیں کہیں ٹن ٹن کرتے بیلوں کے گلے کی گھنٹیاں بتا دیتیں کہ بیل کو جوتا جا رہا ہے کھیت میں ہل چلانے کی تیاری شروع ہو گئی مکھن خشک روٹیوں کو ملائم بنا کر ساتھ چھاچھ ملی لسی ہر صبح وہ فرحت بخش ٹھنڈا ناشتہ جو تپتے سورج کی گرمی کو بھی ٹھنڈا رکھتا تھا۔

آج ہر کسی میں احساس کی کمی کا رونا دوسرا تو روتا ہےلیکن اپنے اندرکی بے حسی ہم میں سے کسی کو دکھائی نہیں دیتی۔ کاروبار ہے مقام ہے رشتے داری ہے ادارے ہیں ایک احمقانہ دوڑ کا ہم سب اس لئے شکار ہیں کہ اصل مقصد بھول گئے دینے والے ہاتھ لینے والی قوم کی مانند دکھائی دیں تو یہی ہوتا ہے آج کسی کا درد سانجھا درد نہیں ہے بلکہ اسکا اپنا انفرادی فعل ہے ۔دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نے رویے خوفزدہ کر دئیے ہیں یہی بے حسی ہے جو ہمیں برما شام مصر بوسینیا فلسطین کشمیر کی آہ و بکاہ سننے سے محروم رکھتی ہے مفادات کے بھرے ہوئے بریف کیس ہماری زبانوں کو چُپ کے تالوں سے پابند کر گئے۔

مصلحت تو امتَ مسلمہ کا شیوہ نہیں تھا حق پر ڈٹ جانا ان کا وطیرہ تھا مظلوم کی فریاد پر درس و تدریس کو نا مکمل چھوڑتے ہوئے محمد بن قاسم وہی وقت تھا جب نکل کر ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچاتا تھا۔

لاکھوں آنکھیں بہہ رہی ہیں اور ہم سمجھ نہیں پا رہے مگر ہر آنسو کے پیچھے کوئی درد کا عنوان ہے؟ کوئی تکلیف اور کرب ہے اور اگر ہم باشعور ہوتے تو جانتے کہ ہر آنسو ایک سبق نہیں مکمل کتاب ہے۔

Parhany Waloon Ka Qehat Hai Warna
Girtay Ansoo Kitaab Hotay Hein


اپنا تبصرہ بھیجیں