انسان اس وقت تک انسان کہلانے کا اہل ہے جب تک وہ نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ دوسرے کو بھی انسان سمجھتا رہے۔ جیسے ہی ہم اپنے آپ کو فرشتہ اور دوسرے کو شیطان سمجھنا شروع کرتے ہیں، فخر و غرور کے پہلے پائیدان کو چھو لیتے ہیں۔ اسی طرح جب اپنے آس پاس فرشتوں کی موجودگی کے احساس سے تنہائی اور گھٹن کا شکار ہو جائیں تو شیطانی وسوسے سے بھی ایک قدم آگے بڑھ جاتے ہیں کہ شیطان بھی راندہ درگاہ ہونے کے باوجود مایوسی کا شکار نہیں ہوا، اس نے مہلت مانگی جو عطا کی گئی۔
انسان شیطان کو اپنا دشمن سمجھتا ہے
اور اسکی بات دوست کی طرح مانتا ہے
شیطان اور فرشتے کے درمیان سے گزر کر اپنا راستہ تلاش کرنا اور اپنے اعمال پر غور کرنا عین انسانیت ہے۔انسان وہی ہے جو اپنے ہر اچھے اور برے فعل پر غور کرے۔ اچھائی پر شکرگزار اور برائی پر نادم ہو۔انسان وہ ہے جو شیطان کو دھتکارتا ہے اور شیطان وہ ہے جو انسان کو شیطان بنا دیتا ہے۔سورہبقرہمیں بتایا گیا ہے کہ یہ زمین پر ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔ شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے۔ یہ بات آسانی سے انسان کی سمجھ میں آجاتی ہے؛ کیونکہ انسان جانتا ہے کہ شیطان انسان کو اللہ کی فرماں برداری کے راستے سے ہٹانے اور تباہی کے راستے پر ڈالنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتا لیکن خواہشات نفس کیلئے جو ترغیبات وہ پیش کرتا ہے اس سے دھوکہ کھاکر انسان اسے اپنا دوست بنا لیتا ہے۔ اس طرح کی دوستی کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حقیقتاً دشمنی دوستی میں تبدیل ہوگئی بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک دشمن دوسرے دشمن سے شکست کھاگیا اور اس کے جال میں پھنس گیا۔شیطان کے بارے میں اورسورۃ اعراف میں فرمایا:
(لَاَقْعُدَنَّ لَہُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ(16) ثُمَّ لَاٰتِیَنَّہُمْ مِّنْ بَیْْنِ أَیْْدِیْہِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ وَعَنْ أَیْْمَانِہِمْ وَعَنْ شَمَآءِلِہِمْ وَلاَ تَجِدُ أَکْثَرَہُمْ شَاکِرِیْنَ)
’’میں بھی ضرور ان کی تاک میں تیری طرف آنے والی سیدھی راہ پر بیٹھوں گا۔ پھر ان کے پاس ان کے آگے اور ان کے پیچھے ،ان کے دائیں اور ان کے بائیں سے آؤں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا‘‘(الاعراف:16-17)
Jis ny qalam Diya jis ny ilam Diya wohii raab rizaaq bi dy ga…