جو نصیب میں ہے وہ چل کر آئے گا


جو نصیب میں ہے وہ چل کر آئے گا
جو نہیں وہ آکر بھی چلا جائے گا

انسان جس طرح کی نیت اور ارادہ رکھتا ہے ویسے ہی پاتا ہے. یہ بات درست بھی ہے اور حقیقت بھی. اللہ تعالٰی نے انسان سے رزق کا وعدہ کیا ہوا ہے اور اللہ اپنے وعدے کا پکا اور سچا ہے. وہ آپکو رزق ضرور دیتا ہے پر اللہ تعالٰی نے انسان کو سوچنے سمجھنے اچھے برے کی پہچان کرنے میں خودمختاری دی ہوئی ہے. انسان اپنے اچھے اور بُرے نصیب کا ذمہ دارکسی حد تک خود بھی ہے ہم اپنی حیات میں جن چیزوں کو اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود نہیں بدل سکتے اُس کو ہم نصیب کے حصے میں ڈال دیتے ہیں۔ انسان اپنا مستقبل نہیں بدل سکتا لیکن اپنے نظریات‘ سوچ اور عقائدکو اپنی کوشش سے بدل سکتا ہے اور یہ وہ بنیادی چیزیں ہیںجن کو بدلنے سے قدرت انسان کا مستقبل بدل دیتی ہے۔

انسان کا نصیب دو طرح کا ہوتا ہے نصیب کی پہلی قسم نصیبِ جامد ہے اور دوسری قسم نصیبِ معلق ہے۔

نصیبِ جامد نصیب کی وہ قسم ہے جس کو انسان اپنی کاوش سے بھی نہیں بدل سکتا ہے خواہ انسان جتنی مرضی تگ و دو کرے اس کو بدلنے میں انسان کا کوئی اختیار نہیں۔ لیکن قدرت کا نصیبِ جامد کی بابت انسان پر ہی بہت بڑا احسان ہے کہ نصیب کے جس حصے کو بدلنے کا اختیار انسان کو نہیں ہے۔ قدرت نے انسان کو اس میں حساب سے بری الذمہ قرار دے دیا ہے کیونکہ جس میں انسان کا اختیار نہیں۔ اُس کا قدرت نے انسان سے حساب بھی نہیں مانگا۔

جو نصیب میں ہے وہ چل کر آئے گا

نصیب معلق نصیب کی وہ قسم ہے جس کو انسان اپنی کوشش سے بدل سکتا ہے۔ یقیناً قدرت انسان کو وہی کچھ عطا کرتی ہے جس کے لئے وہ کوشش کرتا ہے قدرت نصیب معلق کی بابت انسان سے ضرور بازپرس کریگی کیونکہ قرآن مجید کا مفہوم ہے کہ ذات باری تعالیٰ بروز قیامت انسان سے حساب لے گا اب اگر بغور اس آیت کے مفہوم پر روشنی ڈالی جائے تو یہ بات پتا چلتی ہے کہ اﷲ کی ذات نے انسان کو کچھ نہ کچھ ضرور عطاءفرمایا ہے جس کا وہ بشر سے حساب لے گا۔اگرانسان اپنے اندر چھپی صلاحیتوں کو تلاش کرنے کی جستجو کرے اور ان صلاحیتوں کو بروئے کار لائے تو یقیناً وہ کبھی بھی قدرت سے نصیب کا گلہ نہیںکرے گا کیونکہ جب انسان اپنے اندر موجود خداداد صلاحیتوں کو استعمال میں لاتا ہے تو وہ اپنے لئے ایک نئی دنیا تخلیق کرتا ہے کچھ لوگ اپنی زندگی میں مقاصد حاصل کرنے کے بعد بھی خودکو ناکام تصور کرتے ہیں اس کی بڑی وجہ ان لوگوں نے اپنے آپ کو بخوبی سمجھا نہیںہوتا اپنے اندر موجود صلاحیتوں کو پرکھا نہیں ہوتا۔

مشکلات مقاصد کے حصول میں آڑے ضرور آتی ہیں لیکن یہ مشکلات وقتی ہوتی ہیں یا پھر یہ مشکلات انسان کا حوصلہ بلند کرنے کیلئے قدرت کا کوئی راز خفیہ ہیں ایک منصوبہ بندی وہ ہے جو انسان اپنے لئے مرتب کرتا ہے اور ایک منصوبہ بندی وہ ہے جوذات باری تعالیٰ اپنے بندے کیلئے مرتب کرتا ہے یقیناً قدرت کی بنائی گئی منصوبہ بندی انسان کیلئے بہتر ہوتی ہے۔ قدرت بہتر جانتی ہے کہ کس انسان کو کس مقام پر فائز کرنا ہے۔

Jo Naseeb Mein Hay Vo Chal Ker Aye Ga
Jo Nahi Hay Wo Aa Ker Bhi Chla Jaye Ga


اپنا تبصرہ بھیجیں