جو بھی تیرے فقیر ہوتے ہیں


جو بھی تیرے فقیر ہوتے ہیں
آدمی بے نظیر ہوتے ہیں

تیری محفل میں بیٹھنے والے
کتنے روشن ضمیر ہوتے ہیں

پھول دامن میں چند لے لیجے
راستے میں فقیر ہوتے ہیں

جو بھی تیرے فقیر ہوتے ہیں

جو پرندے کی آنکھ رکھتے ہیں
سب سے پہلے اسیر ہوتے ہیں

دیکھنے والا اک نہیں ملتا
آنکھ والے کثیر ہوتے ہیں

جن کو دولت حقیر لگتی ہے
اف وہ کتنے امیر ہوتے ہیں

جن کو قدرت نے حسن بخشا ہو
قدرتاً کچھ شریر ہوتے ہیں

ہے خوشی بھی عجیب شے لیکن
غم بڑے دل پذیر ہوتے ہیں

اے عدمؔ احتیاط لوگوں سے
لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں

عبد الحمید عدم

Dekhnay Wala Ik Nahi Milta
Aankh Walay Kseer Hotay Hein


اپنا تبصرہ بھیجیں