کسی کی ذات پر تہمت لگانے سے پہلے
اپنے دامن پر لگے نشان نہیں بھولنا چاہئیں
دین اسلام نے ہمیشہ اپنی پیروی کرنے والوں کو دوستی و محبت کا درس دیا ہے، اچھی باتوں کا حکم اور بری باتوں سے منع کیا ہے اور انسانوں کو گناہوں سے دور رہنے کی تاکید کی ہے۔ گناہان کبیرہ میں سے ایک گناہ جوانسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بہت زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے، تہمت ہے۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص پر تہمت لگاتا ہے تو وہ دوسروں کو نقصان پہنچانے کے علاوہ خود اپنے کو بھی نقصان پہنچاتا ہے اور اپنی روح کو گناہوں سے آلودہ کرلیتا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’جو لوگ پاکدامن ، بھولی بھالی با ایمان عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں وہ دنیا و آخرت میں ملعون ہیں اور ان کے لیے بڑا بھاری عذاب ہے جبکہ ان کے مقابلے میں ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پاؤں ، ان کے اعمال کی گواہی دیں گے ۔ اس دن اللہ تعالیٰ انہیں پورا پورا بدلہ حق و انصاف کے ساتھ دے گا اور وہ جان لیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہی حق ہے( اور وہی ) ظاہر کرنے والا ہے۔ ‘‘( النور: 23-25)
تہمت معاشرے کی سلامتی کوجلد یا بدیرنقصان پہنچاتی ہے اور سماجی انصاف کو ختم کردیتی ہے ، حق کو باطل اور باطل کو حق بناکر پیش کرتی ہے ، تہمت انسان کو بغیر کسی جرم کے مجرم بناکر اس کی عزت و آبرو کو خاک میں ملادیتی ہے ۔ اگر معاشرے میں تہمت کا رواج عام ہوجائے اور عوام تہمت کو قبول کرکے اس پر یقین کرلیں تو حق ، باطل کے لباس میں اور باطل حق کے لباس میں نظر آئے گا۔
انسان کو چاہیئے کہ تہمت جیسی بدترین نفسیاتی بیماری سے خود کو محفوظ رکھے اور دوسروں کو بھی ایسے گناہ انجام دینے سے منع کریں۔