قانون مکڑی کا جالا


قانون مکڑی کا وہ جالا ہے
جس میں ہمیشہ حشرات یعنی چھوٹے ہی پھنستے ہیں۔
بڑے جانور اسکو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں

ارسطو

قانون مکڑی کا جالا

یونان کے رہنے والے اور ایک عظیم فلسفی سقراط کے شاگرد ارسطو کا مقولہ ھے کہ

قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں ہمیشہ حشرات یعنی چھوٹے ہی پھنستے ہیں۔ بڑے جانور اسکو پھاڑ کر نکل جاتے ہیں

اس کا زیادہ تر دنیا کی سیاست میں اطلاق ہے ے- یہ حقیقت واضح کرتا ہے سیاسیات کا سب سے بڑا مسلۂ یہ ہے کہ انفرادی آزادی کو مملکت کے اقتدار سے کیونکر ہم آہنگ کیا جائے دوسرے لفظوں میں اُن کے نزدیک فرد کو آزادی صرف اُسی وقت حاصل ہو سکتی ہے کہ جب وہ قانون کی عمل داری یا قانون کی حکومت میں رہے یعنی اپنے اوپر مملکت کی عائد کردہ پابندیوں کو قبول کرلے۔ اُن کے نزدیک آزادی اور اقتدار یا اختیار ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتاہے۔ ارسطو وہ پہلا سیاسی مفکر ہے جس نے جمہوریت کو بہترین طرزِ حکومت قرار دیااور عوام کو اقتدارِ اعلیٰ کی اہمیت کو یہ کہہ کر جتایاکہ جمہور کی رائے ایک یا چند افرادکی رائے سے بہتر ہوتی ہے انہوں نے دنیا کے سامنے عمل درآمد کا نظریہ پیش کیااور بتایا کہ حکومت ایسی ہونی چاہیے اور یہی بہترین حکومت ہے ۔

لیکن افسوس کہ پاکستانی سیاست اور حکومت میں نہ تو کوئی فلسفہ ہے اور نہ ہی کوئی قانون کا عمل درآمد یہاں ہر کسی کا اپنا فلسفہ ہے اور اپنی ہی منطق ،یہاں وہ سیاستدان ہی نہیں سمجھا جاتا جو جھوٹا اور مداری نہ ہو۔ہمارے ہاں تو صرف اقتدار استعمال ہی ایک دوسرے کی مخالفت میں ہوتا ہے اور لڑائیوں اور سازشوں کا ایک طویل سلسلہ جاری رہتا ہے۔ الزام تراشی، بہتان طرازی اور لغو زبان استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے۔

ارسطوکا یہ قول ایک تَلخ صداقت ہے اور یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ قوانین بنائے ہی چھوٹے لوگوں کے لیے جاتے ہیں کیونکہ بڑے لوگوں کے لیے قانون ہونا ،نہ ہونا برابر ہے کیونکہ اُن کے پاس یہ طاقت ہوتی ہے کہ وہ جب چاہیں وہ توڑ سکتے ہیں اور جب چاہیں اُس میں ترامیم کر سکتے ہیں ایسے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے جن میں بڑے بڑے لوگوں نے قانون کو ایک مکڑی کے جالے سے زیادہ اہمیت نہیں دی ماضی قریب میں ایسے بہت سے واقعات رونما ہوئے جنہوں نے ارسطو کے قول پر مہرِ صداقت ثبت کی ہے۔ اور تاریخ بہت سے ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔

Qanoon Makri Ka Wo Jala Hay
Jis Mein Hmysha Hishraat Yani Chotay Hi Phastay Hen
Baray Janwr Isko Phar Kr Nikl Jatay Hen


قانون مکڑی کا جالا” ایک تبصرہ

  1. اس مضمون میں دو فاش غلطیاں ہیں۔ نمبر ایک یہ کہ ’’قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جسے طاقتور پھاڑ کر نکلا جاتا ہے اور کمزور پھنس جاتے ہیں‘‘ یہ مقولہ ارسطو کا نہیں کسی اور یونانی فلاسفر کا ہے جس کا نام یاد نہیں آرہا ہے اور دوسری غلطی یہ ہے کہ ارسطو، سقراط کا نہیں بلکہ افلاطون کا شاگرد تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں