نفس کشی


برائی کی طرف نفس دوڑ کر جاتا ہے
نیکی کی طرف اسے گھسیٹ کر لانا پڑتا ہے

نفس کشی

امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: تم اپنی خواہشات سے بالکل اسی طرح ڈرتے رہو جس طرح اپنے دشمنوں سے ڈرتے ہو کیونکہ انسان کے لئے خواہشات کی پیروی اور گفتگو کے نتائج سے بڑا کوئی دشمن نہیں ہے۔ اگر چہ انسان پرخواہشات کی حکومت بہت ہی مستحکم ہوتی ہے لیکن عقل کے اندر ان خواہشات کو کنٹرول کرنے اور انہیں صحیح رخ پرلانے کی مکمل صلاحیت اورقدرت پائی جاتی ہے۔بشرطیکہ انسان خواہشات پر عقل کو فوقیت دے اور اپنے معاملات زندگی کی بھاگ دوڑعقل کے حوالہ کردے۔ صرف یہی نہیں بلکہ جس وقت خواہشات پر عقل کی گرفت کمزور پڑجاتی ہے اور خواہشات اسکے دائرہ اختیار سے باہر نکل جاتے ہیں تب بھی عقل کی حیثیت حاکم و سلطان کی سی ہوتی ہے وہ حکم دیتی ہے ،انسان کو برے کامو ں سے روکتی ہے،اور خواہشات ،نفس کے اندرصرف وسوسہ پیدا کرتے ہیں۔

برائی کی طرف نفس دوڑ کر جاتا ہے
نیکی کی طرف اسے گھسیٹ کر لانا پڑتا ہے

اگرچہ یہ مشکل ضرور ہے لیکن نا ممکن بھی نہیں ہے نفس برائی کرنے پہ سر اٹھاتا رہتا ہے یہ انسانی عقل پہ منحصر ہے کہ وہ اسے نیکی کی طرف مائل کرتا رہے مولائے کائنات کا ارشاد ہے:
ن اﷲ رکّب فی الملائکة عقلا ًبلا شھوة،ورکّب فی البھائم شھوةبلاعقل،ورکّب فی بنی آدم کلیھما۔فمن غلب عقلہ شھوتہ فھوخیرمن الملائکة،ومن غلبت شھوتہ عقلہ،فھوشرمن البھائم)(١)
”خداوند عالم نے ملائکہ کو صرف عقل دی ہے مگرخواہشات نہیں دیں اورحیوانات کو خواہشات دی ہیں مگر عقل سے نہیں نوازا ،مگر اولاد آدم میں یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ رکھی ہیں لہٰذا جسکی عقل اس کی خواہشوں پر غالب آجائے وہ ملائکہ سے بہتر ہے اور جس کی خواہشیں اسکی عقل پر غلبہ حاصل کرلیں وہ حیوانات سے بدتر ہے ”
اسلامی تہذیب کاایک اہم مسئلہ خواہشات کی شدت اورکمزوری کا بھی ہے۔کیونکہ عین ممکن ہے کہ کوئی خواہش نہایت مختصر اور کم ہواور ممکن ہے کہ بعض خواہشات بھڑک کرشدت اختیار کرلیں ۔ چنانچہ اگر یہ مختصر ہوگی تو اس پر عقل حاکم ہوگی اور آدمی ،انسان کامل بن جائے گا اوراگر یہی خواہشات شدت اختیار کرلیں تو پھر ان کا تسلط قائم ہوجاتا ہے اور انسان،حیوانیت کی اس پستی میں پہنچ جاتا ہے جہاں صرف اور صرف خواہشات کا راج ہوتاہے اور عقل وشعور نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ جاتی ہے۔
انسان چاہے اس حالت کے ماتحت ہو یا اس حالت کے ماتحت ہو ہرصورت میں خواہشات کی کمی یا زیادتی کا دارومدار خود انسان کے اوپر ہی ہوتا ہے کہ جب وہ خواہشات کا تابع ہوتاہے اور ان کے تمام مطالبات کو پورا کرتاہے تو خواہشات اور بھڑک اٹھتی ہیں اور انسان کو مکمل طور پر اپنا اسیر بنالیتی ہیں اور انسانی زندگی میں ایک مضبوط قوت کے روپ میں ابھرتی ہیں اور انسان کی زندگی میں ان کاکردار بہت اہم ہوتا ہے۔ اور جب انسان اپنی خواہشات پرپابندی لگاتارہے اوران کوہمیشہ حداعتدال میں رکھے اور خواہشات پرانسان کا غلبہ ہواور وہ عقل کے ماتحت ہوں تو پھر اسکی خواہشات ضعیف ہوجاتی ہیں اور انکا زور گھٹ جاتاہے ۔


اپنا تبصرہ بھیجیں