چلو تم بیٹھے کر الجھتے رہو اپنے اپنے فرقوں میں،
میں چلتا ہوں مجھے دو وقت کی روٹی کمانی ہے!!
افلاطون نے کسی ترنگ میں کہا تھا کہ
’’ہر شہر میں دو شہر ہوتے ہیں ، ایک امیروں کا ایک غریبوں کا۔ دونوں کے اخلاق وعادات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں‘‘۔
غالب حد تک یہ بات حقیقت ہے مگر بہت حد تک اس میں مبالغہ آرائی کی بھی آمیزش کی گئی ہے کیونکہ ہر شہر پر یہ اصول لاگو نہیں ہوتا۔ تقریباً تمام فلاحی ریاستیں اس قسم کی تقسیم سے ماؤرا ہیں۔ اب ہر ملک پاکستان نہیں ہوتا مگر ملک کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ ہر شہر میں محض دو نہیں بلکہ کئی کئی شہر آباد ہیں۔ امیروں کا شہر، غریبوں کا شہر، متوسط طبقے کا شہر، امیر متوسط طبقے کا شہر، غریب متوسط طبقے کا شہراور بہت غریب لوگوں کا شہر۔
ہم جیسے لوگوں کے پاس باتوں کے علاوہ کچھ ہے بھی تو نہیں۔ ناامیروں کی طرح عالیشان محل ہیں جس کے باہر لوگ لائن لگایے کھڑے ہوں۔ نہ ان کی طرح کے شوق پال رکھے ہیں – ہم چالیس ڈگری سینٹی گریڈ میں کام کرنے والے مزدور ہیں۔ ہم ایک عجیب سی مڈل کلاس بھی ہیں جس کی ساری عمر پیسہ جوڑنے میں لگ جاتی ہے اور جب وہ بوڑھی ہوجاتے ہے تو ایک نئی مڈل کلاس پود جنم لیتی ہے۔ جو پھر انہی تحریروں کو پڑھ کے نظام بدلنا چاہتی ہے۔ مگر تعلیم، گھر، نوکری تک یہ تمام اونچے دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ غریب اور سفید پوش طبقہ کیلئے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہو گیا ہے۔ اگر حکمرانوں نے مہنگائی، لاقانونیت، امیر اور غریب کے درمیان فرق اور بے روزگاری پر قابو نہ پایا تو اس ملک کے 19 کروڑ غریب اور مفلوک الحال عوام جو اکیسویں صدی میں بھی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں بہت جلدانکا ہاتھ ہو گا اور ظالموں کا گریبان۔ سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراہ فرماتی ہیں کہ
جب کوئی بھوکا دیکھو تو یہ مت سمجھو کہ خدا کے رزق میں کمی ہے بلکہ سمجھ جاؤ کہ کسی ظالم نے اسکا رزق چھین لیا ہے-