مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے


اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

بندۂ مزدور کو جا کر مرا پیغام دے
خضر کا پیغام کیا، ہے یہ پیام کائنات



اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دار حیلہ گر
شاخ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات

دست دولت آفریں کو مزد یوں ملتی رہی
اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات

ساحر الموط نے تجھ کو دیا برگ حشیش
اور تو اے بے خبر سمجھا اسے شاخ نبات

نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ
خواجگی نے خوب چن چن کے بنائے مسکرات

بزمِ جہاں کا انداز

کٹ مرا ناداں خیالی دیوتاؤں کے لیے
سکرکی لذت میں تو لٹوا گیا نقد حیات

مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات

ہمت عالی تو دریا بھی نہیں کرتی قبول
غنچہ ساں غافل ترے دامن میں شبنم کب تلک

نغمۂ بیداری جمہور ہے سامان عیش
قصۂ خواب آور اسکندر و جم کب تلک

آفتاب تازہ پیدا بطن گیتی سے ہوا
آسمان! ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک

توڑ ڈالیں فطرت انساں نے زنجیریں تمام
دوری جنت سے روتی چشم آدم کب تلک

باغبان چارہ فرما سے یہ کہتی ہے بہار
زخم گل کے واسطے تدبیر مرہم کب تلک

کرمک ناداں! طواف شمع سے آزاد ہو
اپنی فطرت کے تجلی زار میں آباد ہو

علامہ محمد اقبال

Uth Keh Ab Bazm e Jahan Ka Aur Hi Andaz Hay
Mashriq O Maghrib Mein Teray Dor Ka Aghaaz Hay
Allama Iqbal


اپنا تبصرہ بھیجیں