امیرِ شہر سے سارا حساب لے لیں گے
غریب شہر کے بچے جوان ہونے دو
افلاطون نے کسی ترنگ میں کہا تھا کہ
’’ہر شہر میں دو شہر ہوتے ہیں ، ایک امیروں کا ایک غریبوں کا۔ دونوں کے اخلاق وعادات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں‘‘۔
ایک غریب بچہ امیر شہر سے یوں مخاطب ہے؛
ہوائیں سرد اورجسم بے لباس ہے میرا
امیر شہر تجھ کو ذرا بھی احساس ہے میرا؟
یہ حقیقت ہے کہ ہر شہر میں محض دو نہیں بلکہ کئی کئی شہر آباد ہیں۔ امیروں کا شہر، غریبوں کا شہراور بہت غریب لوگوں کا شہر اور محسوس یوں ہوتا ہے کہ غریبِ شہر دنیا کی سب سے مظلوم مخلوق ہے اور امیر شہرانتہائی عجب مخلوق ہے- غربت و افلاس! یہ وہ مصائب ہیں جو ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو اپنی اوقات یاد دلاتے رہتے ہیں۔ ہمارے یہاں، سڑکوں کو، اونچی عمارتوں کو، وسیع وعریض باغات و جنگلات کو، جدید ٹیکنالوجی سے مزین موبائل فون، گاڑیوں کی چمک دمک کو باعثِ فخر سمجھا جاتا ہے۔
لیکن غور کیا جائے تو یہ سب سطحی بلکہ فرضی باتیں ہیں۔ ان سے غریب کو کوئی سروکار نہیں، یہ چیزیں ایک وقت کی بھوک مٹا نہیں سکتیں، اگر فخر ہونا ہی ہے تو غربت سے پاک معاشرے پر ہونا چاہیئے، ہنر مند عوام پر ہونا چاہیئے، تعلیم یافتہ نوجوانان پر ہونا چاہیئے، شرحِ خواندگی پر ہونا چاہیئے، امن و امان پر ہونا چاہیئے، صحت و صفائی کے اعلیٰ معیار پر ہونا چاہیئے، چوری، چکاری ڈاکا و رہزنی سے پاک معاشرے پر ہونا چاہیئے، اور عوام کے ساتھ مخلص سیاست دانوں اور افسران پر ہونا چاہیئے۔ یہ ہمارے سیاستدان جن دیہاتیوں کے ووٹ لے لے کر حکمران بن رہے ہیں یہ مرجائیں تو انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ ارے چوہدریوں، لغاریوں، مرزاریوں، وڈیروں کچھ کرو ان کا، حکومت کا فنڈ نہیں اپنی ذاتی ملکیت سے خرچ کرو، اور چند دعائیں ہی سمیٹ لو۔ شاید کچھ فرق پڑجائے۔ بس اتنا کردو کہ غریب بھوک سے نہ مرے، اس کا بچہ تڑپ تڑپ کر ایڑیاں نہ رگڑے۔
ہماری دانست میں تو امیر شہر ہر گز تمہیں اپنا مستقبل نہیں تصور کرتا، گر کرتا ہوتا تو تمھارا یہ حال ہوتا؟ اے امیر شہر بتا تو سہی!
ہمارا جرم کیا ہے