تکلیف تب ہوتی ہے جب
لوگ زندہ رہ جائیں اور رشتے مر جائیں
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے“رشتے خون کے نہیں احساس کے ہوتے ہیں۔ اگر احساس ہو تو اجنبی بھی اپنے ہو جاتے ہیں اور اگر احساس نہ ہو تو اپنے بھی اجنبی بن جاتے ہیں۔
کچھ رشتوں کا ہم اپنے ہاتھوں سے خون کرتے ہیں اور کچھ اپنی مرضی سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں وجہ احساس کی عدم موجودگی ہوتی ہے۔ جو انسانوں کو ان کے پیارے رشتوں سے دور کرتی ہے۔ جیسے ہی ہم احساس کی گہرائی میں جائیں تو اتنی وسعت ملتی ہے کہ انسان چاہے بھی تو اس دائرہ وسعت سے نہیں نکل سکتا۔ احساس نہ ہو تو رشتے ادھورے سے لگتے ہیں۔ نامکمل رشتے کبھی بھی زندگی پرسکون نہیں گزارنے دیتے ایک کمی اور خلا جو احساس کی عدم موجودگی کی وجہ سے رشتوں میں پیدا ہوتا ہے وہ کبھی بھی پورا نہیں ہوتا۔
اشفاق احمد کہتے ہیں،’’فاتحہ لوگوں کے مرنے پہ نہیں بلکہ احساس کے مرنے پہ پڑھنی چاہیے کیونکہ لوگ مر جائیں تو صبر آجاتا ہے مگر احساس مر جائے تو معاشرہ مر جاتا ہے۔‘‘۔
احساس لفظ بذات خود اتنا نرم اور نازک ہے کہ بولتے ہوئے بھی اپنا احساس دلاتا ہے۔جب لفظ اتنی اچھا ہو تو پھر یہ جذبہ اور اس کی کیفیت کتنی پرکیف اور حساس ہو گی۔انسانی معاشرے میں احساس پیار اور محبت کی پہلی سیڑھی کا نام ہے یہ نہ ہو تو انسان میں قربانی و ایثار کا جذبہ بھی پیدا نہیں ہو سکتا یا یوں کہا جائے کہ احساس ختم ہوجائے تو انسانیت مر جاتی ہے۔ جن کے دل سخت اور مردہ ہوں وہ اس کیفیت سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ احساس کرنے اور کروانے والے لوگ بہت قیمتی اور لاجواب ہوتے ہیں۔ جو احساس کا قرب حاصل کرتے ہیں ان کی منزلیں بھی روشن اور ہموار ہوتی ہیں۔ انسان کو کسی بھی تکلیف کا احساس اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک وہ خود اس تکلیف سے نا گزرے۔ ہمارے معاشرے سے احساس کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ احساس کسی رشتے میں ہو تو رشتے مضبوط ہوتے ہیں اور احساس نا ہو تو رشتے ٹوٹ جاتے ہیں۔ احساس ہی ہے جو رشتوں کو جوڑے رکھتا ہے اور احساس کے خاتمے کے ساتھ ہی تمام رشتے اور تعلقات بھی ختم ہوجاتے ہیں۔یہ بات درست ہے کہ احساس نہ ہو تو تمام رشتے ادھورے سے لگتے ہیں۔ احساس کی عدم موجودگی کی وجہ سے رشتوں میں جو خلاء پیدا ہوتا ہے وہ کبھی بھی پورا نہیں ہوپاتا۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ رشتے درختوں کی مانند ہوتے ہیں، بعض اوقات ہم اپنی ضرورتوں کی خاطر انہیں کاٹ دیتے ہیں اور خود کو گھنے سائے سے محروم کر دیتے ہیں۔
یہ ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے اردگرد کا جائزہ لیں اور اگر کسی کو ہماری ضرورت ہے تو اپنی حیثیت کے مطابق اس کی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ یہی احساس ہے جو بندوں سے ہو تو اللہ کے قرب سے آشنائی ملتی ہے۔رشتوں کی حفاظت کریں چاہے رشتے خون کے ہوں، احساس کے ہوں یا پھر دوستی کے ان کی حفاظت کریں کیونکہ تمام رشتے انمول ہوتے ہیں۔
جب آپ کو اپنے اندر کی آواز سننے کی توفیق ملے گی تو پھر ہی شکر ادا کرنے کا حق ادا ہو گا اور سکون کی دولت ملے گی۔ اس لیے اپنے اردگرد کا جائزہ لیا کریں۔ کس کو آپ کی کتنی اور کیسی ضرورت ہے اور اپنی حیثیت کے مطابق اس کی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ یہی حساس ہے جو بندوں سے ہو تو اللہ کے قرب سے آشنائی ملتی ہے۔