يا حَـيُّ يا قَيّـومُ بِـرَحْمَـتِكِ أَسْتَـغـيث
اے زندہ و قائم تیری رحمت کے ہم سوالی
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا سے فرمایا:
صبح و شام یہ کہو :
يا حَـيُّ يا قَيّـومُ بِـرَحْمَـتِكِ أَسْتَـغـيث
” اے ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہنے والے !
زمین و آسمان اور تمام مخلوق کو قائم رکھنے والے !
تیری رحمت کی دہائی ہے تُو میرے کام درست فرما دے اور مجھے آنکھ جھپکنے کے برابر بھی میرے نفس کے سپرد نہ کرنا ”
(يا حي يا قيوم)
دعا کا آغاز ہی اللہ مالک الملک کے دو پیارے ناموں سے کیا گیا ہے
علامہ عبدالرحمن بن ناصر السعدی لکھتے ہیں :
(الحی القیوم) ” وہ زندہ اور سب کا تھامنے والا ہے۔“
ان دواسمائے حسنیٰ (الحی القیوم) میں دیگر تمام صفات کی طرف اشارہ موجود ہے۔
(الحی)
سے مراد وہ ہستی ہے جسے کامل حیات حاصل ہو، اور یہ مستلزم ہے تمام صفات ذاتیہ کو مثلاً سننا، دیکھنا، جاننا اور قدرت رکھنا وغیرہ
(القیوم)
سے مراد وہ ذات ہے جو خود قائم ہوا اور دوسروں کا قیام اس سے ہو، اس میں اللہ تعالیٰ کے وہ تمام افعال شامل ہوجاتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ متصف ہے یعنی وہ جو چاہے کرسکتا ہے، استواء، نزول، کلام، قول، پیدا کرنا، رزق دینا، موت دینا، زندہ کرنا اور دیگر انواع کی تدبیر سب اس کے قیوم ہونے میں شامل ہیں۔ اس لئے بعض محققین کا کہنا ہے کہ یہی وہ اسم اعظم ہے جس کے ذریعے کی ہوئی دعا رد نہیں ہوتی۔“
(برحمتك أستغيث)
اس کے بعد اللہ مالک الملک کی رحمت کا واسطہ دے کر اس سے مدد اور استغاثہ طلب کیا گیا ہے
علامہ عبدالرحمن بن ناصر السعدی مالک کائنات کی رحمت کے بارے میں لکھتے ہیں :
تیری بے پایاں رحمت مجھے ہر جانب سے گھیر لے، کیونکہ تیری رحمت تمام برائیوں کے مقابلے میں ایک مضبوط اور محفوظ قلعہ ہے اور ہر بھلائی اورمسرت کا سرچشمہ ہے ۔
تیری رحمت ہر چیز پرسایہ کناں ہے علوی اور سفلی تمام کائنات اللہ تعالیٰ کی رحمت سے لبریز اور اس کی رحمت تمام کائنات پر چھائی ہوئی ہے۔ اس کی تمام مخلوق اس رحمت سے بہرہ مند ہوتی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت جو دنیا و آخرت کی سعادت کی باعث ہوتی ہے وہ ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی ۔