موت جسم کو آتی ہے
ہمت اور جذبے کو نہیں
”موت جسم کو آتی ہے ہمت اور جزبے کو نہیں“ ایسا ہمت اور جذبہ شہادت کا جذبہ کہلاتا ہے شہادت ایک ایسا خوشبو دارمعطر پھول ہے کہ جو صرف انسانوں کے درمیان میں خداوند کے منتخب بندگان کو ہی نصیب ہوتا ہے اور صرف انہیں کے مشا م اس کو سونگھ سکتے ہیں۔
شریعت مقدس میں ہم جس شہادت کو جانتے ہیں اورجس کے بارے میں ہمیں قرآنی آیات اوراسلامی روایات بتاتی ہیں اس کا معنی یہ ہے کہ انسان ایک ایسے مقدس مقصد کی راہ کو اپنائے کہ جو واجب یا پسندیدہ ہے اور اس راہ میں جان کی بازی لگا دے یہ صحیح اسلامی شہادت ہے۔
شہید، یعنی ایک انسان جوعظیم معنوی راہ میں جان دیدے اور اپنی جان کو، کہ جو ہر انسان کا اصلی سرمایہ ہے، الہی ہدف و مقصد کے لئے نچھاور کر دے، اور خداوند متعال بھی اس ایثاراور عظیم قربانی کے نتیجے میں شہید کے وجود اور اس کی یاد اور فکر کو نسلوں تک باقی رکھتا ہے۔ اس کا ہدف زندہ و باقی رہتا ہے یہ خدا کی راہ میں جان دینے کی خاصیت ہے وہ لوگ جو خدا کی راہ میں جان دیتے ہیں زندہ ہیں ان کے جسم زندہ نہیں ہیں لیکن ان کا حقیقی وجود زندہ ہے۔قرآن پاک میں ارشادات ہیں کہ
شہید زندہ ہے۔ (سورة البقرہ 154، آل عمران، 169)
شہید کو مردہ مت کہو (سورة البقرہ 154)
شہید بہت خوش ہے۔ (آل عمران)
شہید نے اپنا عہد سنبھال لیا۔ (الاحزاب)
شہید غم اور خوف سے بے پرواہ ہے۔ (آل عمران)
شہید کی حالت کو اللہ تعالیٰ سنوارتا ہے۔ (حدیث)
شہید کیلئے جنت مہکا دی گئی۔ (حدیث)
خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی شہید کی مغفرت کی جاتی ہے۔ (مسند)
بہترین حوروں سے شہید کی شادی کرائی جاتی ہے۔ (مسند احمد)
شہید کیلئے جنت فردوس اعلیٰ ہے۔ (بخاری)