زندگی مسلسل امتحان ہے


زندگی مسلسل امتحان ہے
یہاں بار بار گرنے کے بعد بھی
اُٹھ جانے کا نام کامیابی ہے

کامیابی

زندگی ایک مسلسل امتحان ہے ۔لوگ اس میں پاس ہونے کے لیے اکثر دوسروں کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، ہر انسان سے زندگی مختلف سوال پوچھتی ہے اور انکے جواب بھی ہر کسی کے لیے مختلف ہوتے ہیں ۔کچھ لوگ پیچھے رہ جاتے ہیں ناکام ہو جاتے ہیں اور مایوس ہو جاتے ہیں- لیکن کچھ لوگ گرنے کے بعد بھی مایوس نہیں ہوتے دوبارہ محنت کرتے ہیں امتحان انسان کو پرکھنے کے لیے ہیں- امتحان انسان کو تکمیل تک لے جاتے ہیں، کامل بناتے ہیں.

انسان کی زندگی کوخدا نے امتحانوں سے بھرا ہوا ہے نہ صرف اس زندگی کا ہر لمحہ ، ہر لحظہ ، ہر دقیقہ، ہر سیکنڈ اور ہماری ہر سانس امتحان ہے، بلکہ ہماری ہر ہر حالت بھی امتحان ہے، صحت اور بیماری دونوں امتحان ہیں، دولت اور غربت امتحان ہیں، جوانی اور بڑھاپا، طاقت اور کمزوری، فرصت اور مصروفیت غرض اس دنیا کی زندگی سوائے امتحان کے اور کچھ بھی نہیں۔ وہ حاضر و ناظر سمیع و بصیر بھی دیکھ رہا ہے کہ ہم کب کیا کرتے ہیں لہذا زندگی کے امتحان میں سرخرو ہونا ہے تو اپنی قابلیت پر یقین رکھ کر آگے بڑھیں-

جب تک ہماری روح اس دنیا کی اس فانی زندگی میں ہمارے جسم میں قید ہے اس وقت تک ہم خود کو اور اپنے اعمال کو ان امتحانوں سے پرکھ سکتے ہیں ناپ سکتے ہیں۔زندگی میں انسان کو بے شمار ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن کامیاب وہی لوگ ہوتے ہیں جو ناکامیوں سے گھبراتے نہیں بلکہ ان سے سبق سیکھتے ہیں اور اپنی غلطیوں اور خامیوں میں آگے بڑھنے کے لئے مسلسل جدوجہد میں لگے رہتے ہیں اور منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔ کیونکہ زندگی مسلسل جدوجہد کا نام ہے۔

ابراہام لنکن نے اپنے ایک خط میں بیٹے کے استاد کو لکھا کہ میرے بیٹے کو یہ سکھاؤ کہ امتحان میں نقل مارنے کی نسبت فیل ہونا زیادہ بہتر ہے- جب تک وہ فیل نہیں ہوگا کچھ نہیں سیکھ سکتا- اس لیئے جو ہمت ہار جاتے ہیں اور دل چھوڑ دیتے ہیں‘ وہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ کامیابی کا زینہ ناکامیوں سے مل کر تیار ہوتا ہے۔ جو ناکامیوں سے خوفزدہ رہتا ہے وہ کچھ سیکھ نہیں سکتا اگر کچھ حاصل کرنا ہے تو اس کے لئے خطرہ مول لینا پڑتا ہے۔

اگر آپ کی زندگی ناکامیوں سے پاک ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ خطرات میں کودنے کی جرأت سے عاری ہیں۔ کامیابی اور ناکامی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ ناکامی کوئی چیز نہیں لیکن اس کے اندر سے کامیابی باہر آ جاتی ہے۔ جب ہم کسی چیز کے حصول میں ناکام رہیں تو مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ ہم صرف اپنی کامیابیوں کو یاد رکھتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ ہماری ایک فیصد کامیابی ناکام جدوجہد پر مبنی ہوتی ہے۔ جب پتھر کو آخری ضرب سے توڑا جاتا ہے تو اس کایہ مطلب نہیں ہوتا کہ پہلے لگائی جانے والی ضربیں رائیگاں چلی گئی ہیں۔ خامیوں کا احساس ہی کامیابی کی کنجی ہے گویا ناکامی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے۔

Zindagi Musalsal Imtehaan Hai
Yahan Baar Baar Girnay Kay Baad bhi
Uth Janay Ka Nam Kamyabi Hai


اپنا تبصرہ بھیجیں