تعلق فرصت کا نہیں توجہ کا محتاج ہے
آج کے مادہ پرستی یا مشینی دور میں ہمارا معاشرتی ڈھانچہ شکست و ریخت کا شکار ہے، روز قیامت کی طرح ہر انسان کو اپنی پڑی ہوئی ہے،کسی کے پاس کسی کے لیے وقت نہیں ہے۔ عزیز رشتے داروں کے ساتھ، مل بیٹھنا، ان کے ساتھ سیروتفریح سب کا سب ہمارے معاشرتی کلچر کا ماضی بن کر رہ گیا ہے، اب کوئی کسی سے ملنے کا روادار بھی نہیں رہا، آج کے انسان نے خودکو انتہائی محدود کرلیا ہے اب ’’سوشل میڈیا‘‘ پر ہی وہ اپنے رشتے داروں، دوست احباب سے اِن ٹچ رہتا ہے، بات نہیں کرتا ان سے صرف ’’ایس ایم ایس‘‘ سے کام چلا رہا ہے اس کا موبائل بیلنس اسے اپنے رشتے داروں اور دوستوں سے زیادہ عزیز ہے۔
رشتے مضبوط ہوں یا کمزور بہرطور وہ انسان کی تکمیل ہوتے ہیں، لیکن دنیا کی سب سے زیادہ نازک عارضی، ناقابل اعتبار چیز انسانی رشتے ہوتے ہیں۔ بلاشبہ وقت، دوست اور رشتے ہمیں مفت ملتے ہیں لیکن ان کی قدروقیمت کا تب پتہ چلتا ہے جب یہ کہیں گم ہوجاتے ہیں۔کہتے ہیں
تعلق فرصت کا نہیں توجہ کا محتاج ہے
تعلقات احساسات سے جڑے ہوتے ہیں اگر احساس مرجائے تو ان ٹوٹتے بکھرتے رشتوں کی باریک باریک کرچیاں ایسے زخم دے جاتی ہیں جو رہتی سانسوں تک رِستے رہتے ہیں اور ان زخموں کا مداوا نہیں ہوتا۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض گھروں میں چھوٹی چھوٹی باتیں بڑے بڑے رشتوں کا یا تو سرے سے ختم ہی کردیتی ہیں یا پھر معمولی معمولی باتیں بڑے بڑے رشتوں میں بدگمانی کے ایسے سوراخ کردیتی ہیں کہ انسان ساری عمر ان سوراخوں میں وضاحتوں کی اینٹیں لگا کر بھی خوبصورت رشتوں کو نہیں بچایا جا سکتا۔
ایسا محض اس لیے بھی ہوتا ہے کہ تعلق اور رشتے فرصت کے نہیں بلکہ عزت توجہ اور اہمیت کے محتاج ہوتے ہیں انھیں جتنی قدرومنزلت دی جائے اتنے ہی وہ گہرے اور مضبوط ہوتے جاتے ہیں، لیکن کیا ہے کہ ہم سب زندگی کے مسائل، مصائب اور بکھیڑوں میں پھنس کر اپنے والدین، بہن بھائیوں اور دیگر اہم خونی رشتوں کی خدمت سے محروم رہتے ہیں اور اس خدمت کا قرض کندھوں پر اٹھائے اپنی اپنی قبروں میں چلے جاتے ہیں۔