گناہ زہر ہے


گناہ زہر کی مانند ہیں، جو کم ہوں یا
زیادہ ہر صورت میں نقصان دہ ہیں

آج ہر انسان پریشان ہیکسی کوجانی پریشانی ہے تو کسی کومالی، کسی کو منصب کی پریشانی ہے تو کسی کوعزت وآبرو کی، امیر اپنی کوٹھی میں پریشان تو غریب جَھونپڑی میں، کوئی روزگار اور حالات سے نالاں ہے تو کوئی عزیز واقارب اور دوست واحباب سے شاکی۔ تقریباً ہر آدمی کسی نہ کسی فکر، ٹینشن اور پریشانی میں مبتلاہے۔

دلی سکون،قرار اور اطمینان حاصل کرنے کے لیے ہر ایک اپنے ذہن اوراپنی سوچ کے مطابق اپنی پریشانیوں کی از خود تشخیص کرکے ان کے علاج میں لگتاہے۔ کوئی اقتدار،منصب یا عہدہ میں سکون تلاش کرتاہے؛ مگر جب اُسے مطلوبہ منصب مل جاتا ہے تو پتہ چلتاہے کہ اس میں تو سکون نام کی کوئی چیز ہی نہیں؛ بلکہ منصب کی ذمہ داریوں اورمنصب کے زوال کے اندیشوں کی صورت میں اور زیادہ تفکرات ہیں۔

کسی نے سمجھا کہ سکون صرف مال ودولت کی کثرت وفراوانی میں ہے؛ مگرحقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں کو یہ مال ودولت حاصل ہوا، اُن میں سے اکثر کا حال یہ ہے کہ کاروباری تفکرات، ترقی کا شوق،دن بدن بڑھتی ہوئی حرص اور تجارت میں نقصان کے اندیشوں سے اُن کی راتوں کی نیند حرام ہے،الا ماشاء اللہ۔کسی نے رقص وسرود اور شراب وکباب کو باعثِ سکون جانا؛ مگروقتی اور عارضی لذت کے بعد پھر بھی بے چینی اور اضطراب برقرار۔ کسی نے منشیات کا سہارا لیا؛ مگر اس میں بھی صرف عارضی دل بہلاوا، عارضی فائدہ اور دائمی نقصان۔ کسی نے نت نئے فیشن کرکے دل بہلانے کی کوشش کی؛ مگر سکون وقرار نہ ملا۔

جب کہ دینی ذہن رکھنے والوں کا یہ خیال ہے کہ مختلف پریشانیوں اور مصیبتوں سے بچاؤ کا اصل طریقہ اور اُن کا حقیقی علاج صرف ایک ہی ہے کہ اپنے آپ کو گناہگار،خطاکار، نافرمان اور قصوروار سمجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی جائے اور گناہوں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کو راضی کرلیا جائے؛ کیونکہ سکون وراحت کے سب خزانے اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں،وہی ان کا مالک ہے، جب مالک راضی ہوگا تو خوش ہوکر اپنی مملوکہ چیز(سکون وراحت) اپنے فرمانبردار بندوں کو عطا کرے گا اور وہ مالک راضی ہوتا ہے نافرمانی اور گناہوں کو چھوڑنے اور فرمانبرداری اختیارکرنے سے۔

ہر آدمی جانتا ہے کہ ہراچھے یا بُرے عمل کا رد عمل ضرور ہوتاہے، دنیا میں پیش آنے والے حالات پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی چیز انسان کے اچھے یا بُرے اعمال ہیں جن کا براہِ راست تعلق اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور ناراضی سے ہے۔ کسی واقعہ اور حادثہ کے طبعی اسباب جنہیں ہم دیکھتے، سُنتے اور محسوس کرتے ہیں، وہ کسی اچھے یا برے واقعہ کے لیے محض ظاہری سبب کے درجہ میں ہیں۔ سادہ لوح لوگ حوادث وآفات کو صرف طبعی اورظاہری اسباب سے جوڑتے اورپھراِسی اعتبار سے اُن حوادث سے بچاؤ کی تدابیر کرتے ہیں۔ شرعی تعلیمات کی روشنی میں بحیثیت مسلمان ہمیں یہ اعتقاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم اور امر سے ہوتا ہے، جس کاعقل اورحواس خمسہ کے ذریعہ ادراک کرنے سے ہم قاصر ہیں، وحی الٰہی اورانبیاء علیہم السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے جزاء وسزا کا جو نظام سمجھایا ہے، وہ ہمیں اس غیبی نظام کے بارے میں آگاہ کرتا ہے، وہ یہ کہ کسی بھی واقعہ اور حادثہ کا اصل اورحقیقی سبب اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور ناراضی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے حالات کو (خواہ اچھے ہوں یا بُرے) انسانی اعمال سے جوڑا اور وابستہ فرمایا ہے، چنانچہ انسان کے نیک وبداعمال کی نوعیت کے اعتبار سے احوال مرتب ہوتے ہیں؛ صحت ومرض، نفع ونقصان، کامیابی وناکامی، خوشی وغمی، بارش وخشک سالی، مہنگائی وارز انی، بدامنی ودہشت گردی، وبائی امراض، زلزلہ، طوفان، سیلاب وغیرہ،یہ سب ہمارے نیک وبد اعمال کا ہی نتیجہ ہوتے ہیں۔ بالفاظِ دیگر :ان سب احوال کے ظاہری اسباب کچھ بھی ہوں؛ مگر حقیقی اسباب ہمارے نیک وبد اعمال ہوتے ہیں۔اس طرح کے خوفناک اور عبرت انگیز واقعات (خواہ انفرادی ہوں یااجتماعی ) دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ”الارم“ اور ”تنبیہ“ ہوتے ہیں؛ تاکہ انسان اپنے اعمال کا محاسبہ کرے اور کوئی تنبیہ اس کے غفلت شعار دل کو جُنبش دینے میں کامیاب ہوجائے :

جب بھی میں کہتا ہوں: اے اللہ! میرا حال دیکھ

حکم ہو تا ہے کہ ا پنا نا مہٴ ا عما ل د یکھ

دُنیا میں پیش آمدہ اچھے یا بُرے واقعات سے حاصل ہونے والا انسانی تجربہ بھی اسی پر شاہد ہے کہ بہت سارے لوگوں اور قوموں پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی وجہ سے دُنیا میں ہی مختلف قسم کے عذاب آئے ہیں، مثلاً:کوئی مسخ کیاگیا، کوئی زمین میں دھنسایا گیا، کوئی دریا میں غرق کیاگیا،کوئی طوفان کی نذر ہوا۔ ان تباہ شدہ اقوام کی بستیوں کے کھنڈرات آج بھی اس حقیقت پر دال ہیں کہ نافرمانی سببِ پریشانی ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیثِ مبارکہ میں اعمال کی حسبِ نوعیت تاثیرات کو(جیسی کرنی ویسی بھرنی کے بہ مصداق) مختلف پہلوؤں اور طریقوں سے بیان فرمایا ہے، امت کوبدعملیوں کے بُرے نتائج سے آگاہ فرماکر اعمال کی اصلاح کا حکم دیا ہے؛ چنانچہ یہ مضمون قرآن کریم کی دسیوں آیات اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیکڑوں احادیث سے صراحةً ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

۱- ”مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِّنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثیٰ وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہ حَیٰوةً طَیِّبَةً“․ (النحل:۹۷)

ترجمہ:”جو کوئی نیک کام کرے گا، خواہ مرد ہو یا عورت، بشرطے کہ صاحبِ ایمان ہو، تو ہم اُسے پاکیزہ (یعنی عمدہ) زندگی دیں گے“۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ نیکی پُرسکون زندگی کا سبب ہے؛چنانچہ دو چیزوں (ایمان اور اعمال صالحہ) کے موجود ہونے پر اللہ تعالیٰ نے ”حیٰوة طیبة“ یعنی پرلطف اور پُرسکون زندگی عطا فرمانے کا وعدہ کیا ہے۔ عام آدمی بھی یہ آیت پڑھ کر یہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ ایمان اور اعمال صالحہ نہ ہوں یا کوئی ایک نہ ہو تو ”حیٰوة طیّبة“ یعنی ”پُرسکون زندگی“ نصیب نہ ہوگی، بلکہ ”پریشان زندگی“ نصیب ہوگی۔

۲- ”وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَإِنَّ لَہ مَعِیْشَةً ضَنْکاً وَّنَحْشُرُہ یَوْمَ الْقِیَامَةِ أَعْمیٰ“․ (طہ:۱۲۴)

ترجمہ:”اور جو شخص میری نصیحت سے اعراض کرے گا تو اس کے لیے (دنیا اور آخرت میں) تنگی کا جینا ہوگا۔“

مطلب یہ ہے کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل نہ کی؛ بلکہ نافرمانی کی تو اللہ تعالیٰ اس پر دنیا کی زندگی تنگ کردیں گے، ظاہری طور پر مال ودولت، منصب وعزت مل بھی جائے تو قلب میں سکون نہیں آنے دیں گے، اس طور پر کہ ہر وقت دنیا کی حرص، ترقی کی فکر او ر کمی کے اندیشہ میں بے آرام رہے گا۔ اس آیت سے بھی یہی ثابت ہوا کہ” نافرمانی سببِ پریشانی اور فرمانبرداری سببِ سکون ہے“۔

۳- ”ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْ النَّاسِ لِیُذِیْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ“․(الروم:۴۱)

ترجمہ: ”خشکی اور تری میں لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی (اعمال) کے سبب خرابی پھیل رہی ہے؛ تاکہ اللہ تعالیٰ اُن کے بعض اعمال کا مزہ انہیں چکھادے؛تاکہ وہ باز آجائیں“۔

۴- ”وَمَآ أَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ“․ (الشوریٰ:۳۰)

ترجمہ:”اور تم کو جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے ہی ہاتھوں کے کیے کاموں سے (پہنچتی ہے) اور بہت سارے (گناہوں) سے تو وہ (اللہ تعالیٰ) درگزر کردیتا ہے“۔

ان دونوں آیات سے معلوم ہوا کہ مصیبت اور فساد کا سبب خود انسان کے اپنے کیے ہوئے بُرے اعمال ہیں، اور یہ بھی بآسانی سمجھ میں آرہاہے کہ: اگر بُرے اعمال نہ ہوں تو یہ مصائب، آفات اورفسادات وغیرہ بھی نہ ہوں گے۔ نتیجہ یہی نکلا کہ” نافرمانی سببِ پریشانی اور فرمانبرداری سببِ سکون ہے“۔

خلاصہ یہ کہ ہم پر جو پریشانیاں اور مصیبتیں آتی ہیں، وہ ہمارے اپنے ہی اعمال کا نتیجہ ہیں، لہٰذا پُرسکون اورپُرلطف زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی گزشتہ کوتاہیوں پر نادم ہوکر اللہ تعالیٰ سے ان پر معافی مانگیں،فی الفور نافرمانی چھوڑ کر آئندہ اپنے اعمال کی اصلاح کریں۔ والله الموفّق والمعین ․


اپنا تبصرہ بھیجیں