سہارا جب نہیں ہوتا بزرگوں کا تو بچہ بھی
شکم کی بھوک کی خاطر پڑھائی چھوڑ دیتا ہے
پاکستان میں بڑھتے ہوئے تعلیمی اخراجات اور دن بدن مہنگائی میں اضافے کے پیش نظر خدشہ ہے کہ ہمارے ملک میں بجائے چائلڈ لیبر کم ہونے کے مزید بڑھے گی پاکستان کو بنے 68 سال ہو چکے ہیں ایسا ملک جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا تاکہ سب مسلمان یہاں آزادی سے زندگی گزار سکیں سب کو ان کے حقوق ملیں پھر کیا وجہ ہے کہ نوعمر بچے اپنے بنیادی حقوق وتعلیمی حقوق سے محروم ہیں اور مزدوری کرنے پر مجبور ہیں
آج تک کسی بھی حکومت نے ٹھوس بنیادوں پر کوئی حکمت عملی مرتب نہیں دی جس سے چائلڈ لیبر کو روکا جا سکے ایسا لگتا ہے کہ ہم نے بحیثیت مجموعی چائلڈ لیبر کو اپنے اوپر تسلیم کر لیا ہے حالات سے مجبور ہوکرہنسنے کھیلنے کے دنوں میں معصوم بچے کام کرنے نکل کھڑے ہوتے ہیں جو یقیناً اس معاشرے کیلئے ایک المیہ فکر ہے بچوں کی مزدوری کے پیچھے ایک بڑی اہم وجہ غربت ہے بچے کسی بھی قوم کا مستقبل اور سرمایہ ہوتے ہیں معصوم بچے جو کسی بھی معاشرے میں ایک پھول کی حیثیت رکھتے ہیں اور معاشرے کی ایک انتہائی معصوم اور حساس پرت ہوتے ہیں ،جن کی موجودگی سے گھروں میں رونق ہوتی ہے اور جنہیں پڑھ لکھ کر ملک کے مستقبل کا معمار بننا ہوتا ہے لیکن جب حالات سے مجبور ہو کران بچوں کو ہنسنے کھیلنے کے دنوں میں محنت مشقت پر مجبور کر دیا جائے تو یقیناً اس معاشرے کیلئے ایک المیہ فکر ہے پاکستان میں بڑھتے ہوئے تعلیمی اخراجات اور دن بدن مہنگائی میں اضافے کے پیش نظر خدشہ ہے کہ ہمارے ملک میں بجائے چائلڈ لیبر کم ہونے کے مزید بڑھے گی ، پاکستان میں گھریلو ملازمین کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے، اس کو اگر انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ اس وقت پاکستان میں لاکھوں گھریلو ملازمین شہروں اور دیہات میں نہایت کم اجرت پر دن رات کام کرتے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد کم عمر بچے اور بچیاں خاص طور پر ظلم و جبر کی چکی میں پس رہی ہیں۔
شہروں میں پڑھے لکھے خاندان ہوں یا دیہات کے نیم خواندہ چودھری وڈیرے، خان اور ملک یہ سب اپنے ملازمین کو انسان نہیں زمین پر رینگنے والے کیڑے مکوڑے یا جانور سمجھتے ہیں۔ سارا دن کوھلو کے بیل کی طرح گھٹیا سے گھٹیا کام کرنے کے باوجود ان سے جانوروں سے بھی بدتر سلوک ہوتا ہے۔ جانوروں کو تو پھر بھی آرام کا موقع ملتا ہے۔ کھانے کو چارہ ملتا ہے پینے کو پانی ملتا ہے موسم کے حساب سے سرد و گرم جگہ ملتی ہے۔ مگر ان ملازمین کو صرف کھانے کیلئے دو وقت کی روکھی سوکھی روٹی یا بچا کچھا کھانا نصیب ہوتا ہے۔ بات بات پر جھڑکیاں، مار پیٹ، گال گلوچ کا ان کو ہر وقت سامنا رہتا ہے۔ کام کاج کے کوئی اوقات کا ر مقرر نہیں۔ تنخواہ کا کوئی معیار مقرر نہیں۔ چھٹیوں کا تصور ہی ان کیلئے بے معنیٰ ہے۔ انہیں ہفتے کے سات دن 24 گھنٹے بارہ مہینے صرف اور صرف کام اور کام کرنا ہوتا ہے۔ یہ توبڑے بڑے گھروں کی حالت ہے جہاں ان بچوں کو زر خرید غلاموں کی طرح خریدا جاتا ہے۔ ان بچو ں کے والدین غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر ان کم عمر بچوں کو چند ہزار روپوں کی خاطر ان امرا کے گھر میں اس اُمید پر بھیجتے ہیں کہ وہاں انہیں کم از کم کھانا اور سر چھپانے کی جگہ تو میسر ہو گی، مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے اشرافیہ میں خاندانی اشرافیہ کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ سب نو دولتیے ہیں۔ یہ خود کمی کمین سے اُٹھ کر نواب سردار ، خان، شاہ اور چودھری بنے ہیں۔ انہیں کیا معلوم کے ملازم کے غلام کے حقوق کیا ہیں۔
یہ کام کرنیوالے بچے بات بات پر جھڑکیاں سہتے ہیں۔ مار کھاتے ہیں۔ انہیں پہننے کو اترن ملتی ہے جو صرف تن ڈھانپنے کے کام آتی ہے۔ یہ کام کرنیوالے بچے اور بچیاں ان اشرافیہ کی بگڑی ہوئی اولادوں اور ان اشرافیہ کے ہاتھوں کارندوں، نوکروں اور غنڈوں کے ہاتھوں عام طور پر جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔
قانون دان ہوں یا افسر، تاجر ہو یا صنعتکار، سیاستدان ہوں یا چودھری ، خان اور شاہ و مخدوم یہ سب ان کا استحصال کرتے ہیں۔ برسوں انہیں ماں باپ سے ملنے نہیں دیا جاتا۔ اگر وہ آئیں تو انہیں جھڑک کر بھگا دیا جاتا ہے۔ ان کے لیئے بہتری کے سب کام ہماری حکومتوں نے ہی کرنے ہیں۔ ان کیلئے آسمان سے اب کوئی مسیحا نہیں آئیگا۔ ان لاکھوں بچوں کو جو چائلڈ لیبر کہلاتے ہیں، سڑکوں ، دکانوں سے لے کر گھروں تک میں اذیت بھری زندگی بسر کر رہے ہیں، جنہیں آواز بلند کرنے کی اجازت نہیں ، بولنے ، احتجاج کا حق نہیں۔ ان بچوں کو انسانوں کی اولاد تسلیم کرنا ہو گا۔ انسانی حقوق دینا ہوں گے۔