بھوک کے پیاس کے خطرات سے ڈر جاتا ہے
مار کے اپنے ہی بچوں کو وہ مر جاتا ہے
ہر طرف اس کی ہی محنت کے مظاہر ہیں مگر
بھوک کے ہاتھ سے مزدور بکھر جاتا ہے
اچھی زندگی کا خواب جس میں خوشیاں ہوں، امن ہو، روشن مستقبل ہو، کوئی آزار نہ ہو، بس بہار ہی بہار ہو، ایسا خواب دنیا کا ہر انسان دیکھتا ہے۔ اسے دیکھنا بھی چاہیے۔ یہ اس کا حق ہے کہ وہ یہ خواب دیکھے۔ ایسے خوابوں کو تعبیر دینے کے لیے ہی دنیا کا ہر مرد و زن محنت کرتا ہے، اپنا پسینا بہاتا ہے اور ضرورت ہو تو اپنا خون بھی۔ وہ اپنے خواب کی تعبیر کے لیے ہر ممکن جدوجہد کرتا ہے۔ ایک مزدور کا خواب اور اسے مجسم تعبیر کرنے کی پیہم جدوجہد، ہاں دنیا کا ہر مزدور ایسا ہی خواب دیکھتا اور اتنی ہی محنت کرتا ہے۔
یکم مئی 1972ء کو پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے پہلی مرتبہ باضابطہ طور پر سرکاری سطح پر یکم مئی کو محنت کشوں کا دن قرار دیا۔ تب سے اب تک ہرسال یکم مئی کو ملک میں عام تعطیل ہوتی ہے اور پاکستان کے تمام محنت کش دنیا بھر کے محنت کشوں کے ساتھ مل کر اپنے ان ساتھیوں کی یاد تازہ کرتے ہیں جو ان کے حقوق کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے یکم مئی 1886ء کو ہلاک ہوئے تھے۔ لیکن ایسا کرنے سے انہیں قطعی طور پر کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ پاکستان کے آدھے مزدور تو یہ بھی نہیں جانتے کہ یکم مئی ان کا عالمی دن ہے۔ اس دن عالمی چھٹی ہوتی ہے۔ تمام لوگ اپنے گھروں میں چین کی نیند سو رہے ہوتے ہیں یا چھٹی کا فائدہ اٹھا کر گھوم پھر رہے ہوتے ہیں اور مزدور اس دن بھی مزدوری کی تلاش میں بھٹک رہا ہوتا ہے۔ گھروں میں کام کرنے والی عورتیں، مالی، ڈرائیور، خانساما، آیا، چوکیدار سب ہی کام پر حاضر ہوتے ہیں۔ انہیں ان کے نام پر منائے جانے والے دن پر چھٹی میسر نہیں ہوتی اس دن مزدور عام دن کی نسبت زیادہ کام کرتا ہے شاید اس لیے کہ آج اس کا خصوصی دن ہے۔
آج کل سرمایہ داری اپنے اصولوں سے ہی ہٹ چکی ہے، مقابلہ بازی کی بجائے مافیا کا وجود ہے، غریبوں کے جنازے اٹھنا معمول ہے۔ بے روزگاری کی شرح میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کمپنیاں اپنے منافع میں سے مزدوروں کی حفاظت پر خرچنے کو کیونکر ترجیح دیں گی؟ سیفٹی کے قوانین لاگو ہونا ایک جھوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔
مارکس نے کہا تھا محنت کشوں کے پاس کھونے کے لیے سوائے بیڑیوں کے کچھ نہیں۔ پر آج کے مزدور کے پاؤں میں تو بیڑی تک نہیں کہ اسے ہی توڑ کے بیچ دے۔