سارا فساد بڑھتی ہوئی خواہشات کا ہے


سارا فساد
بڑھتی ہوئی خواہشات کا ہے

خواہش گر

مشہور مفکر مجددالاسلام امام غزالی نے فرمایا تھا کہ جانوروں میں خواہش کی حس ہوتی ہے مگر عقل نہیں ہوتی ،فرشتوں میں عقل ہوتی ہے مگر خواہش نہیں،انسانوں میں خواہش او ر عقل دونوں ہوتی ہے،عقل خواہش پر غالب آجائے توانسان فرشتوں سے افضل اوراگر خواہش عقل پر غالب آجائے تو انسان جانوروں سے بدترہے۔

قرآنی ہدایت ہے کہ’’ہم نے (اے انسان) تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے۔ لہٰذا تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ حکومت کر اور خواہشِ نفس کی پیروی نہ کر کہ وہ تجھے اﷲ کی راہ سے بھٹکا دے گی‘‘(سورۃ ص:۲۶)

’’خواہشِ نفس کی پیروی کرنے والوں کی اطاعت نہ کرو،جس کا طریق کار افراط و تفریط پر مبنی ہو‘‘ (الکف:۲۸)

بابا جی ( اشفاق احمد)بتاتے ہیں کہ انہیں ان کے بابوں نے یہ بتایا ہے کہ اگر آپ اپنی خواہشوں کو، اپنی تمناؤں کو، اپنی آرزؤں کو ذرا سا روک سکیں جس طرح آپ اپنے پیارے “ڈوگی” کو کہتے ہیں، “تم ذرا باہر دہلیز پر ٹھہرو، میں اپنا کام کرتا ہوں پھر میں تمھیں لے کر چلوں گا” تو خواہشات کو بھی سنگلی ڈال کر چلیں اور خواہشات کو جب تک آپ پیار نہیں کریں گے، اسے نچائیں گے نہیں، اس کو گلستان کی سیر نہیں کروائیں گے وہ چمٹ جائیں گی آپ سے، لاتعلقی، آپ اور آپ کی تمناؤں کے درمیان سنگلی ہوتی ہے اور ایک عجیب طرح کا فاصلہ ہوتا ہے۔ اسی طرح خواہش کے اور آپ کے درمیان ایک فاصلہ ہونا چاہیے-

فطرتی طور پر انسان اگر ایک خواہش کوحاصل کرلیتا ہے تو اس سے اس کی مزید خواہشوں جاگ جاتی ہیں اور پھر ان کی تکمیل چاہنا ہے- اور کبھی کبھی یہ خواہشات اس پہ اتنی حاوی ہو جاتی ہیں کہ ان کےلئے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتا ہے اور دن ورات بھر ان کا قیدی ہو جاتا ہے- ان کے لے جھوٹ
بولنا، حسد میں مبتلا ہو جانا، دوسروں کا حقٌ مارنا، اپنے ضمیر کو دھوکہ دینا سب کچھ اسکو اچھا لگتا ہے اور ان کا جائز سمجھتا ہے- یوں انسان اپنے خالق یا اپنے رب کا بندہ بننے کی بجائے نفس کا اسیر بن کر رہ جاتا ہے-اور دنیا پہ فساد بھی لوگوں کی انہی خواہشات کی وجہ سے ہے کیونکہ لوگ حرص و لالچ جیسی بیماریوں میں مبتلا ہیں- اور انہی بیماریوں سے وہ ظلم وستم اور قتل وغارت بھی کر رہا ہے- یہی حال طاقتور قومیں، کمزور قوموں کے ساتھ کر رہیں ہیں- انسان کی انفرادی زندگی سے لے کر قوموں ملکوں کی اجتماعی زندگی تک فساد کی جڑ حرص و ہوس ہے-

خواہشات اور وسائل میں توازن نہ رہے تو زندگی غیرمتوازن ہونے لگتی ہے، خواہشات کی شدت حد سے تجاوز کرجائے تو حرص بن جاتی ہے اور حرص انسان کی شخصیت کو بدبودار اور بدصورت بنادیتی ہے۔اﷲ کے بندوں خوب جان لو کچھ خواہشیں ایسی نامعقول ہوتی ہیں دنیا کو خبرہوجائے تو انسان ذلیل ہوکررہ جائے – نیک خواہش اور نیک نیت میں بڑی مماثلت ہے نیت نیک ہو تو منزل آسان ہو جاتی ہےاور ثواب بھی ملتاہے-

Sara Fsaad Brhti Hui Khwahshat Ka Hay


اپنا تبصرہ بھیجیں