شرافت سوز تصویروں کی عریانی نہیں جاتی
ادب کی آڑ میں ترغیبِ رومانی نہیں جاتی
خدا معلوم نسلِ نو کا کیا انجام ہونا ہے
وطن سے فحش نغموں کی فراوانی نہیں جاتی
عذاب آئے تو اس میں سینکڑوں کی جان جاتی ہے
نہیں جاتی تو شیطانوں کی شیطانی نہیں جاتی
کہیں بستی کی بستی بوند پانی کو ترستی ہے
کہیں بارش برستی ہے تو طغیانی نہیں جاتی
جہاں کے ذرے ذرے سے نمایاں ہے جلال اس کا
مگر ہم سے خدا کی ذات پہچانی نہیں جاتی
زمانہ اس قدر قائل ہوا ہے فیض جھوٹوں کا
جو سچ کہتے ہیں ان کی کوئی بات مانی نہیں جاتی
فیض احمد فیض
بہت عمدہ اور نفیس نفسیات پائی ہے۔
ماشاءاللہ
کہیں بستی کی بستی بوند پانی کو ترستی ہے
کہیں بارش برستی ہے تو طغیانی نہیں جاتی
جہاں کے ذرے ذرے سے نمایاں ہے جلال اس کا
مگر ہم سے خدا کی ذات پہچانی نہیں جاتی