اٹھ کر تو آگئے ہیں تری بزم سے مگر – فیض احمد فیض

سب قتل ہوکے تیرے مقابل سے آے ہیں

سب قتل ہوکے تیرے مقابل سے آئے ہیں ہم لوگ سرخرو ہیں کی منزل سے آئے ہیں شام نظر، خیال انجم، جگر کے داغ جتنے چراغ ہیں، تری محفل سے آئے ہیں اٹھ کر تو آگئے ہیں تری بزم سے مگر کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں ہر اک قدم مزید پڑھیں

قرب کے نہ وفا کے ہوتے ہیں – اختر ملک

قرب کے نہ وفا کے ہوتے ہیں جھگڑے سارے انا کے ہوتے ہیں بات نیت کی صرف ہے ورنہ وقت سارے دعا کے ہوتے ہیں بھول جاتے ہیں مت برا کہنا لوگ پتلے خطا کے ہوتے ہیں وہ بظاہر جو کچھ نہیں لگتے ان سے رشتے بلا کے ہوتے ہیں وہ ہمارا ہے اس طرح مزید پڑھیں

کوئی بُت کوئی خُدا یاد نہیں

جن کے سر منتظرِ تیغِ جفا ان کو

آئیے ہاتھ ’اٹھائیں ہم بھی ہم جنہیں رسمِ دعا یاد نہیں ہم جنہیں سوزِ محبت کے سوا کوئی ’بت کوئی خدا یاد نہیں آئیے عرض گزاریں کہ نگارِ ہستی زہرِاِمروز میں شیرنئی فردا بھر دے وہ جنہیں تابِ گراںباریء اِیّام نہیں ’ان کی پلکوں پہ شب و روز کو ہلکا کر دے جن کی آنکھوں مزید پڑھیں

شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں – فیض احمد فیض

تم نا حق شیشے چن چن کر

موتی ہو کہ شیشہ جام کہ در جو ٹوٹ گیا سو ٹوٹ گیا کب اشکوں سے جڑ سکتا ہے جو ٹوٹ گیا سو چھوٹ گیا تم ناحق ٹکڑے چن چن کر دامن میں چھپائے بیٹھے ہو شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں کیا آس لگائے بیٹھے ہو شاید کہ انہیں ٹکڑوں میں کہیں وہ ساغر دل مزید پڑھیں

اب حشر اُٹھا کیوں‌ نہیں‌ دیتے

بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں‌ نہیں ‌دیتے

بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں‌ نہیں ‌دیتے تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں‌ نہیں ‌دیتے دردِ شبِ ہجراں‌ کی جزا کیوں‌ نہیں دیتے خونِ دلِ وحشی کا صلہ کیوں ‌نہیں دیتے ہاں ‌نکتہ ورو لاؤ لب و دل کی گواہی ہاں‌ نغمہ گرو ساز‌ صدا کیوں‌ نہیں‌ دیتے مِٹ‌ جائے گی مخلوق تو انصاف مزید پڑھیں

شرافت سوز تصویروں کی عریانی نہیں جاتی

شرافت سوز تصویروں کی عریانی نہیں جاتی - فیض احمد فیض

شرافت سوز تصویروں کی عریانی نہیں جاتی ادب کی آڑ میں ترغیبِ رومانی نہیں جاتی خدا معلوم نسلِ نو کا کیا انجام ہونا ہے وطن سے فحش نغموں کی فراوانی نہیں جاتی عذاب آئے تو اس میں سینکڑوں کی جان جاتی ہے نہیں جاتی تو شیطانوں کی شیطانی نہیں جاتی کہیں بستی کی بستی بوند مزید پڑھیں

نہیں نگاہ میں منزل– فیض احمد فیض

نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی

نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی نہ تن میں‌ خون فراہم نہ اشک آنکھوں میں نمازِ شوق تو واجب ہے بے وضو ہی سہی کسی طرح تو جمے بزم میکدے والو نہیں جو بادہ و ساغر تو ہاؤ ہو ہی سہی گر انتظار کٹھن ہے تو مزید پڑھیں

اب صاحبِ انصاف ہے خود طالبِ انصاف

اب بزمِ سخن صحبتِ لب سوختگاں ہے اب حلقۂ مے طائفۂ بے طلباں ہے گھر رہیے تو ویرانیِ دل کھانے کو آوے رہ چلیے تو ہر گام پہ غوغائے سگاں ہے پیوندِ رہِ کوچہء زر چشمِ غزالاں پابوسِ ہوس افسرِ شمشاد قداں ہے یاں اہلِ جنوں یک بہ دگر دست و گریباں واں جیشِ ہوس مزید پڑھیں