اپنی عقل کے مطابق کام کرنے کا نام دین نہیں
دین قرآن و سنّت کی اتباع کا نام ہے
بے شک دینِ اسلام صرف قرآن و سنت کی اتباع کا نام ہے ۔قرآن آخری آسمانی کتاب ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بنی نوعِ انساں کی رشدوہدایت کے لیے نازل فرمایاہے۔ اس میں ہرچیزکاکھلابیان ہے نیز انسان کو راہِ راست پرلگانے کی جملہ ہدایات اس کے اندرمضمرہیں۔قرآن کی بہت ساری آیتوں سے اتباعِ رسول کے اشارے ملتے ہیں۔اسے ایک بڑاہی پرعظمت نکتہ سمجھناچاہیے کیوں کہ قرآن کی صحیح تفہیم ‘ سنت رسول پرعمل پیراہوئے بغیر ممکن نہیں ہوسکتی۔
اللہ تعالیٰ نے سورۂ عمران میں واضح فرمایاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت بنی نبوعِ انساں کے لیے ایک معلم ومربی کی سی ہے۔
لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُوْمِنِیْنَ إذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُولاً مِّنْ أنْفُسِہِمْ یَتْلُو عَلَیْہِمْ آیَاتِہٖ وَ یُزَکِّیْہِمْ وَ یُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَ الْحِکْمَۃَ o (سورۂ آل عمران:۳؍۱۶۴)
بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جوان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انھیں پاک کرتا اور انھیں کتاب وحکمت سکھاتاہے ۔
صحابہ کرام کا دور دین کا بہترین دور تھا۔ اس دور میں کسی کو بھی اور کسی بھی امر پر کوئی اختلاف نہ تھا۔ جس طرح پروانے اپنی ہستی سے بے نیاز و بیخود ہو کر اپنی جانیں شمع پہ وار دینے کے لئے شمع کے گرد منڈلاتے رہتے ہیں ، عین اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سچی محبت میں مدہوش ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کی اتباع میں محو و منہمک رہتے ۔ انہیں اختلافی مسائل کو کریدنے اور ان پہ بحث کرنے کے لئے کوئی بھی وقت نہ ملتا۔
اب لوگ دین میں اختلاف کے ساتھ ساتھ من گھڑت باتیں بھی نکال رہے اور اپنی عقل کے مطابق چل رہے مگر دین کی پیروی قرآن و سنّت کی اتباع ہے۔
دین ایک دوسرے کی محبت اور خیر خواہی کا نام ہے۔ محبت اور خیر خواہی دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ جسے کسی سے محبت ہوگی اس کا خیر خواہ ہوگا۔ بندہ اسی کا خیر خواہ ہوتا ہے جس سے کہ اسے محبت ہو۔جب سے دین میں بحث شروع ہوئی ہے ، صالح اعمال رخصت ہوئے۔ بندے کے ناقص خیال کے مطابق جب تک دین میں محبت اور خیرخواہی قائم رہتی ہے ، عمل بھی قائم رہتا ہے۔
یہ فطرت کا کلی قاعدہ ہے
جو دین میں محبت اور خیر خواہی کو فروغ نہیں دیتا ،اسے عمل کی توفیق نہیں دی جاتی