ساۓ میں بیٹھی ہوئی نسل کو معلوم نہیں
دھوپ کی نذر ھوۓ پیڑ لگانے والے
لاکھ مسمار کیے جائیں زمانے والے
آ ہی جاتے ہیں نیا شہر بسانے والے
اس کی زد پر وہ کبھی خود بھی تو آ سکتے ہیں
یہ کہاں جانتے ہیں آگ لگانے والے
اب تو ساون میں بھی بارود برستا ہے
اب وہ موسم نہیں بارش میں نہانے والے
سر سے جاتا ہی نہیں وعدہء فروا کا جنوں
مر گئے عدل کی زنجیر ہلانے والے
ہم نہ کہتے تھے تجھے، وقت بہت ظالم ہے
کیا ہوئے اب وہ ترے ناز اٹھانے والے
سائے میں بیٹھی ہوئی نسل کو معلوم نہیں
دُھوپ کی نذر ہوئے پیٹر لگانے والے
گھرمیں دیواریں ہیں اور صحن میں آنکھیں ہیں سلیم
اتنے آزاد نہیں وعدہ نبھانے والے