قربانی کرنا، عید منانا خوب خوشی کے نغمے گانا
جو غم کے مارے ہیں بیچارے ان کو لیکن بھول نہ جانا
حضرت ابراہیم ؑ کی قربانی میں خلوص نیت تھی۔اپنی عزیز ترین اکلوتی اولاد کو اﷲ کی رضا کے لئے قربان کرنے کا عزم ابراہیمؑ خلیل اﷲ ہی کر سکتے تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے ان کی قربانی قبول و منظور فرمائی۔آج عید الاضحیٰ ایک ایسے موقع پر منائی جا رہی ہے جہاں قربانی کا جزبہ کم اور دکھاوا ذیادہ ہوتا ہے- ایک دوسرے ک مقابلے پہ جانور ذبح کیے جاتے ہیں لیکن اس کے حقیقی مقاصد کو بھول جاتے ہیں- ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم جو قربانی کر رہے ہیں اس میں خدمت خلق کا جزبہ ہے یا نہیں۔
عید الضحیٰ کی خوشیاں سب مسلمانوں ک لیے اہم ہوتی ہیں- ایک مسلمان کی عید احکام الہٰیہ کے ماتحت اور اُس کی خوشیاں رضائے الہٰی کے تابع ہوتی ہیں، اُس کا ہر فعل اپنے ربّ کی خوشنودی کیلئے ہوتا ہے اور اُس کا جشن طرب روحانیت کی تکمیل اور سعادت دارین کے حصول کیلئے ہوتا ہے، ایک مسلمان مومن ِصادق کی سچی خوشی اور حقیقی نشاط کا راز اِس بات میں پوشیدہ ہے کہ وہ اپنا تن من دھن سب کچھ اپنے آقا و مولا کے سپرد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ” میری نماز، میری عبادات، میرا جینا، میرا مرنا اُس رب العلمین کیلئے ہے جس کا کوئی شریک نہیں“ یہ حقیقت ہے کہ اسلام دین فطرت ہے- اسلام اپنے ماننے والوں کو خوشی کے موقع پر عید منانے کی اجازت دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد اپنے خالق و مالک کی اطاعت و عبادت ہے، وہ یاد دلاتا ہے کہ ایک مسلمان خواہ راحت میں ہو یا مصیبت میں اُسے کسی بھی حال میں اپنے خالق سے رشتہ نہیں توڑنا چاہیے
ہر حال میں اپنے ربّ کی اطاعت و بندگی کا راستہ اختیار کرنا چاہیے، کیونکہ وہی کبریائی کا حق دار اور حاکمیت و الوہیت کا مستحق ہے اور حمد و ثنا کا ثنا سزا وار ہے، اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ عید منانا اور جشن و طرب کے ایام مقرر کرنا فطرت کے تقاضوں کے مطابق ہے، تم عید مناؤ، خوشی و مسرت ،فرح و سرور کا اظہار کرو، مگر جشن و نشاط میں اپنی ہستی کو فراموش مت کرو، اپنے حقوق و فرائض سے غافل نہ ہوجاؤ اور اپنے خالق کو مت بھول جاؤ۔اور جو احکامات بتاےُ گےُ ان کے مطابق عمل کرو- سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے پیکر تسلیم و رضا بن کر اعلائے کلمة اللہ کیلئے جو قربانی دی تھی اُس سلسلے کو جاری رکھا جائے اور تمام دینوی حرص و لالچ، جاہ و منصب اور دولت و ثروت کے بتوں کو مثل خلیل توڑ دیا جائے، آج پاکستان اور دین اسلام کو اسی طرح کی قربانی درکار ہے، ہمیں اپنے دائرہ کار اور اختیار کے مطابق اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا ہونگی
عید قربان کے بہت سے مقاصد ہیں جس میں ایک مل بانٹ کر کھانا بھی ہے اسی لیے تو اللہ نے قربانی کے گوشت کے تین حصے کرکے بانٹنے کو کہا ہے ایک اپنے گھر کے لےُ، دوسرا رشتہ داروں کے لےُ اور تیسرا غریبوں کے لےُ- اور ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ قربانی کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں تاکہ غریب لوگاور ان کے بچےٌ بھی خوشی منا سکیں محبت اور ایثار کا جزبہ قائم ہو – یہی حقیقی عید قرباں ہے۔